ہفتہ 22 جمادی اولی 1446 - 23 نومبر 2024
اردو

رخصتى سے قبل ہى بيوى سے دخول كر ليا اور اب سسرال والے فسخ نكاح چاہتے ہيں

127833

تاریخ اشاعت : 28-03-2010

مشاہدات : 4898

سوال

ايك نوجوان كى ايك لڑكى سے منگنى ہوئى اور پھر عقد نكاح بھى ہو گيا، اور لڑكے نے سسرال والوں كے علم كے بغير لڑكى سے دخول بھى كر ليا، اور لڑكى اور لڑكے ميں اختلافات ہوئے جس كے نتيجہ ميں ان كے تعلقات قائم ركھنا محال ہوگئے اب مشكل يہ ہے كہ لڑكى كنوارى نہيں رہى، اور نوجوان كى والدہ نے لڑكى كى والدہ كو بھى اس كے متعلق بتا ديا ہے، ليكن لڑكى والے اس خبر كے باوجود بھى فسخ نكاح پر اصرار كر رہے ہيں، ان كا كہنا ہے كہ وہ فسخ نكاح كے ليے ہر قسم كے حقوق سے دستبردار ہونے پر تيار ہيں.
ليكن لڑكے والے خوفزدہ ہيں كہ كہيں وہ لڑكى پر ظلم نہ كر بيٹھيں، اور وہ لڑكى كى شہرت خراب ہونے سے بچانے كى حرص ركھتے ہيں، اور وہ بہت زيادہ اختلافات كے باوجود اس شادى كو برداشت كرنے پر تيار ہيں، حالانكہ ان اختلافات كے ہوتے ہوئے تعلقام قائم ركھنا مشكل ہيں.
كيا لڑكے كے ليے يہ جائز ہے كہ وہ سسرال والوں سے اپنى بيوى كو سپرد كرنے كا مطالبہ كرے كيونكہ اس سے دخول ہو چكا ہے چاہے رخصتى كا اعلان نہيں ہوا ؟
اور كيا اگر لڑكى والوں نے فسخ نكاح پر اصرار كيا تو وہ گنہگار ہونگے اور اس مسئلہ كو حل كرنے سے انكار كر رہے ہيں اور فسخ نكاح كے نتيجہ ميں كيا مرتب ہوگا، اور آپ اس سلسلہ ميں كيا نصيحت كرتے ہيں ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

جب آدمى كا عورت سے عقد نكاح ہو جائے تو وہ اس كى بيوى بن جاتى ہے، اور اس كے ليے اس عورت سے جماع كے علاوہ باقى سب كچھ كرنا جائز ہے، كيونكہ جماع كرنے كے نتيجہ ميں بہت سارى خرابياں پيدا ہو سكتى ہيں، ہو سكتا ہے وہ اس جماع سے حاملہ بھى ہو جائے، اور مقرر كردہ رخصتى كے وقت سے قبل ولادت ہو جائے، تو اس طرح عورت پر تہمت لگے، يا پھر خاوند كى جانب سے اسے طلاق ہو جائے، يا خاوند فوت ہو جائے، تو خيال كيا جائے كہ عورت كنوارى ہے حالانكہ وہ كنوارى نہيں ہے.

اس ليے خاوند كو چاہيے كہ وہ رخصتى كے اعلان تك صبر كرے، اور عورت كو بھى چاہيے كہ اگر خاوند جماع كرنا چاہے تو وہ اسے اس سے منع كرے.

مزيد آپ سوال نمبر ( 111165 ) اور ( 70531 ) كے جواب كا مطالعہ ضرور كريں.

دوم:

خاوند كو چاہيے كہ اس عرصہ ميں جو اختلافات ہوئے وہ ان كى طبعيت كو ديكھے، اور مستقبل ميں ان اختلافات كو ختم كرنے اور ان پر غلبہ كرنے كے امكان كا جائزہ لے، اگر تو واضح ہو كہ ان اختلافات كا علاج كرنا ممكن ہے، تو وہ اپنى اس شادى كو برقرار ركھے، اور سسرال والوں سے بيوى كو سپرد كرنے كا مطالبہ كرے.

اور اگر يہ واضح ہو كہ يہ ايسے امور ہيں جن كے متعلق ظن غالب ہو كہ ان كے ہوتے ہوئے ازدواجى زندگى كو قائم ركھنا مشكل ہے تو پھر خاوند كے ليے بيوى كو طلاق دينے ميں كوئى حرج نہيں، اور وہ اسے پورے حقوق ادا كرے، جو كہ پورا مہر ( مقدم اور مؤخر دونوں ) ہے، اور اگر بيوى اپنى رضامندى كے ساتھ اس ميں كچھ سے دستبردار ہو جاتى ہے تو اس ميں كوئى حرج نہيں.

سوم:

جب خاوند نكاح كو باقى ركھنے كى رغبت ركھتا ہو لڑكى والے طلاق پر مصر ہوں، تو اس سلسلہ ميں بيوى كى رائے مرجع شمار ہو گى، كيونكہ وہى اس معاملہ والى ہے اور اس نے ہى خاوند كے ساتھ رہنا ہے، اگر تو وہ طلاق نہيں چاہتى تو خاوند كو چاہيے كہ وہ اپنى بيوى كو اپنے پاس ركھے اور اسے طلاق مت دے، اور اگر وہ ان مشاكل كى بنا پر طلاق چاہتى ہو، اور ديكھے كہ اس خاوند كے ساتھ رہنا مشكل ہے تو پھر خاوند كو چاہيے كہ وہ اسے طلاق دے دے.

اللہ تعالى سب كو اپنى رضا و خوشنودى كے كام كرنے كى توفيق نصيب فرمائے.

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب