الحمد للہ.
اول:
اس وقت مسلمانوں کو بہت سے مسائل کا سامنا ہے جن میں سے ایک یہ بھی ہے کہ جامعات، اسپتالوں، عوامی جگہوں اور سرکاری اداروں میں مخلوط ماحول پایا جاتا ہے۔
مرد و زن کے مخلوط ماحول اور اس پر مرتب ہونے والے منفی نتائج کے متعلق سوال نمبر: (1200 ) میں تفصیلات گزر چکی ہیں، اور یہ کہ مسلمان مخلوط ماحول میں تعلیم حاصل کرنے اور کام کرنے سے اجتناب کرے۔
البتہ جن ممالک میں زندگی کے اکثر شعبوں میں مخلوط ماحول پایا جاتا ہے ، خصوصاً تعلیمی مراکز اور ملازمت کی جگہوں میں مخلوط ماحول سے مسلمان کے لیے اجتناب کرنا بہت ہی مشکل ہو گیا ہے تو ایسے ممالک کے مسلمانوں کے لیے قدرے گنجائش ہو گی ، لیکن جنہیں اللہ تعالی نے مخلوط ماحول سے محفوظ رکھا ہوا ہے ان کے لیے گنجائش نہیں ہو گی۔
اس گنجائش کی بنیاد ایک فقہی قاعدہ ہے کہ: "جو چیز سد ذرائع کے طور پر حرام ہو تو وہ چیز ضرورت اور راجح مصلحت کی وجہ سے مباح ہو گی۔"
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"ساری کی ساری شریعت اس بات پر قائم ہے کہ حرمت کا تقاضا کرنے والی خرابی کے مقابلے میں کوئی راجح مصلحت آ جائے تو پھر حرام کام کو مباح قرار دیا جائے گا۔" ختم شد
"مجموع الفتاوى" (29/49)
آپ رحمہ اللہ مزید کہتے ہیں:
"جس کام کی ممانعت کا تعلق سد ذرائع سے ہو تو اس کام سے تبھی روکا جائے گا جب اس کی ضرورت نہ ہو، لیکن جب اس کام کی ضرورت ایسی واضح مصلحت کے طور پر ہو جو اس کام کے بغیر حاصل ہی نہ ہو سکتی ہو تو پھر اس سے نہیں روکا جائے گا۔" ختم شد
" مجموع الفتاوى" (23/214)
ابن قیم رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"جو کام سد ذریعہ کے طور پر حرام کیا گیا ہو تو وہ راجح مصلحت کے ہوتے ہوئے مباح ہو گا، جیسے کہ ربا الفضل کے ہوتے ہوئے بیع العرایا کو جائز قرار دیا گیا، اسی طرح فجر اور عصر کے بعد سببی نمازوں کو ادا کرنا جائز قرار دیا گیا، ایسے ہی منگنی کرنے والے ، کسی معاملے کے گواہ اور معالج وغیرہ کے لیے حرام نظر جائز قرار دی گئی، اسی طرح سونا اور ریشم مردوں پر سد ذرائع کے طور پر عورتوں سے مشابہت کی وجہ سے حرام کیے گئے کہ عورتوں سے مشابہت اختیار کرنے والا شخص ملعون ہے؛ لیکن جب ضرورت ہو تو یہ سونا اور ریشم استعمال کرنا جائز ہے۔" ختم شد
"اعلام الموقعين" (2 / 161)
شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"جس چیز کی حرمت بطور وسیلہِ حرام ہو تو پھر ضرورت پڑھنے پر وہ چیز مباح ہو گی" ختم شد
" منظومة أصول الفقه " صفحہ: 67
تو واضح یہ لگتا ہے کہ -واللہ اعلم- ایسے ممالک جہاں پر مخلوط ماحول عام ہو چکا ہے، تو ان ممالک کے باشندوں کو مخلوط ماحول میں تعلیم اور ملازمت کے لیے گنجائش دی جائے گی ، لیکن دوسروں کو یہ گنجائش حاصل نہ ہو گی، جیسے کہ پہلے گزر چکا ہے، لیکن یہ گنجائش بھی متعدد شرائط کے ساتھ مشروط ہے، جو کہ درج ذیل ہیں:
اول: پہلے انسان اپنی استطاعت اور طاقت کے مطابق ایسی جگہ تلاش کرے جہاں اختلاط نہ ہو۔
دوم: مخلوط ماحول کی جگہ پر شرعی احکامات کی پابندی کرے کہ نظریں جھکا کر رکھے، ملازمت اور تعلیم کے دائرے میں رہتے ہوئے مختصر اور محتاط گفتگو اور بات چیت کرے۔
شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ سے ایک نوجوان کے متعلق پوچھا گیا کہ اسے تعلیم کے لیے مخلوط اسکول ہی مل رہا ہے، تو انہوں نے جواب دیا کہ:
"آپ ایسا اسکول تلاش کریں جہاں پر یہ صورت حال نہیں ہے، لیکن اگر آپ کو مخلوط ماحول سے پاک اسکول نہیں ملتا ، اور آپ کو تعلیم کی ضرورت بھی ہے تو پھر آپ مخلوط ماحول والے اسکول میں پڑھیں، اور جس قدر ممکن ہو سکے برائی اور فتنے سے دور رہیں، اس کے لیے آپ نظریں جھکا کر رکھیں، اپنی زبان کو محفوظ رکھیں، عورتوں سے باتیں مت کریں اور نہ ہی ان کے پاس جائیں۔" ختم شد
فتاوى نور على الدرب (1/103). (13/127)
سوم:
جب انسان کو خدشہ ہو کہ حرام کی جانب پھسل جائے گا، اور مخلوط ماحول کی خواتین کے فتنے میں مبتلا ہو جائے گا تو ایسی صورت میں دین سلامت رکھنا دیگر تمام مفادات اور مصلحتوں سے مقدم ہو گا، تو اس پر لازم ہے کہ ایسی جگہ فوری طور پر چھوڑ دے، اللہ تعالی اسے اپنے فضل سے غنی فرمائے گا۔
اس بارے میں مزید کے لیے آپ سوال نمبر: (69859 ) کا جواب ملاحظہ کریں۔
واللہ اعلم