الحمد للہ.
اول:
ہم اللہ تعالی سے دعا گو ہیں کہ اللہ تعالی آپکی توبہ قبول فرمائے، آپ کا گناہ معاف کر دے، ایمان و ہدایت کیلئے شرح صدر فرما دے، اور پروردگار اپنے بارے میں بد گمانی کا خاتمہ فرما دے، کیونکہ اپنے پروردگار کے بارے میں بد گمانی سے بڑی بات کوئی نہیں ہے، حالانکہ تمام نعمتیں اور سہولیات اسی نے عطا کی ہیں، اور ان نعمتوں میں سے سب سے بڑی نعمت اسلام کی نعمت ہے، اس کے بعد عقل و شعور کی نعمت ہے، چنانچہ اللہ تعالی نے اپنی مخلوقات میں سے انسان کو چن کر اسلام کی توفیق دی اور اسے کافر نہیں بنایا، اسی طرح عقل و شعور دیکر جانوروں اور پاگلوں سے منفرد بنا دیا، اللہ تعالی نے انسان کے جسم و جان میں اتنی نعمتیں رکھی ہیں کہ جنہیں صرف اللہ تعالی ہی شمار کر سکتا ہے۔
یہ بھی اللہ تعالی کی نعمت ہے کہ وہ اپنے بندوں کو مصیبتوں میں مبتلا کرتا ہے تا کہ اس کے گناہوں کا ازالہ ہو جائے یا اس کے درجات میں اضافہ ہو، یا اسے اس بات کی یاد دہانی کروائی جائے کہ ایک دن اللہ کے پاس جا کر اس کے سامنے کھڑا ہونا ہے، چنانچہ کتنے ہی اللہ سے بیزار لوگ مصیبت کے بعد اللہ کے بندے بن گئے، اور ان کی خوشحالی و مسرت کا سامان مصیبت ہی بنا۔
انسان جب یہ یقین کر لے کہ اللہ تعالی اس پر سب سے زیادہ رحم کرنے والا ہے، تو اس کے فیصلوں پر راضی اور حاصل ہونے والی مصیبتوں پر صبر کرتا ہے، اور اللہ تعالی سے مشکل کشائی کی امید لگا کر رکھتا ہے۔
بھائی! آپ اپنے اوپر ہونے والی اللہ تعالی کی نعمتوں کے بارے میں ذرا غور و فکر کریں تا کہ آپ اللہ کا شکر ادا کریں اور اس کے فضل کا اعتراف کریں ، اور یہ بات یقینی ہے کہ آپ کو کوئی بھی مصیبت پہنچے گی تو اس میں آپ کیلئے خیر ہے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: (کسی بھی مسلمان کو کچھ بھی تھکاوٹ، درد، پریشانی، ملال، تکلیف، اور غم پہنچے حتی کہ کوئی کانٹا بھی چبھے تو اللہ تعالی اس کے بدلے میں اس کے گناہ مٹا دیتا ہے) بخاری: (5642) مسلم: (2573)
ترمذی : (2399) میں ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (مؤمن مرد اور خاتون کو اپنے بارے میں یا اولاد کے بارے اور مال کے بارے میں پریشانیاں آتی رہتی ہیں اور جب اللہ سے ملتے ہیں تو ان کا کوئی گناہ باقی نہیں رہتا)
ترمذی: (2398) اور ابن ماجہ: (4023) میں سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کہتے ہیں ، میں نے عرض کیا: "اللہ کے رسول! کن لوگوں کو سب سے سخت آزمائش کا سامنا کرنا پڑتا ہے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (انبیائے کرام کو، ان کے بعد جو کوئی جس قدر ان کے نقش قدم پر چلے، چنانچہ انسان کو دینداری کے مطابق ہی آزمایا جاتا ہے، لہذا جتنا زیادہ دیندار ہوگا اتنی ہی زیادہ آزمائش سخت ہوگی، اور اگر دینداری میں کمی ہو تو اسی قدر آزمائش میں بھی کمی ہوتی ہے، چنانچہ انسان پر مصیبتیں اتنی آتی ہیں کہ زمین پر چلتے ہوئے اس پر کوئی گناہ ہی باقی نہیں رہتا)" اس حدیث کو البانی نے صحیح ترمذی میں صحیح قرار دیا ہے۔
دوم:
جو شخص اپنے دل میں اللہ تعالی کے بارے میں بغض رکھے، یا اللہ تعالی کے فیصلوں کے بارے میں اظہار ناپسندیگی کرے، یا نعوذ باللہ ، اللہ تعالی کے بارے میں بد گمانی رکھے تو ایسے شخص کو تجدید ایمان کرنی چاہیے، اور نیکی و عمل صالح کیلئے خوب دوڑ دھوپ کرے۔
اور عمداً ترک کیے ہوئے روزوں کی قضا لازمی نہیں ہے؛ کیونکہ روزے مخصوص وقت کی عبادت ہیں، چنانچہ اگر کوئی شخص عمداً وقت پر روزے نہ رکھے تو بعد میں اس سے روزے قبول نہیں کیے جائیں گے، اور ویسے بھی اسلام قبول کرنا سابقہ تمام گناہوں کو مٹا دیتا ہے۔
شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ سے استفسار کیا گیا:
"ایسے مسلمان شخص کا کیا حکم ہے جو کئی سالوں سے دیگر فرائض تو ادا کر رہا ہے لیکن
صحت مند ہونے کے باوجود رمضان کے روزے نہیں رکھ رہا، تو کیا توبہ کرنے کیلئے سابقہ
تمام روزے رکھنا ضروری ہے؟"
تو انہوں نے جواب دیا:
"صحیح بات یہی ہے کہ اگر اس نے توبہ کر لی ہے تو اس پر قضا لازمی نہیں ہے؛ کیونکہ
ایسی عبادت جس کی ادائیگی کیلئے وقت مقرر کیا گیا ہے اور کوئی مقررہ وقت پر عمداً
بغیر کسی عذر کے وہ عبادت نہیں کرتا تو اللہ تعالی اس کی یہ عبادت بعد میں کرنے پر
قبول نہیں فرمائے گا ۔
چنانچہ اس بنا پر سابقہ روزوں کی قضا دینے کا کوئی فائدہ نہیں ہے، تاہم توبہ کرنے
کے بعد کثرت سے عمل صالح کرے، جو شخص اللہ تعالی سے سچے دل کیساتھ توبہ مانگے تو
اللہ تعالی اس کی توبہ قبول فرماتا ہے" انتہی
"مجموع فتاوى شیخ ابن عثیمین" (19/87)
ہم اللہ تعالی سے دعا گو ہیں کہ اللہ تعالی آپکے ایمان و ہدایت میں مزید برکت عطا فرمائے۔
واللہ اعلم.