الحمد للہ.
نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ ثابت ہے کہ آپ جمعہ کے دن منبر پر دعا کرتے ہوئے شہادت والی انگلی سے اشارہ کیا کرتے تھے، چنانچہ عمارہ بن رویبہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے بشر بن مروان کو منبر پر ہاتھ اٹھا کر دعا کرتے ہوئے دیکھا تو انہوں نے کہا: "اللہ تعالی ان دونوں ہاتھوں کو غارت فرمائے، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا تھا آپ [منبر پر دعا فرماتے ہوئے] اس سے زیادہ کچھ نہیں کرتے تھے، پھر انہوں نے اپنی شہادت والی انگلی سے اشارہ کر کے دکھایا" مسلم: (874)
اسی طرح ابو داود: (1499) اور نسائی: (1273) میں سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ : "رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس سے گزرے تو میں اپنی دو انگلیوں [کے اشارے ]کیساتھ دعا کر رہا تھا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (ایک ، ایک اور آپ نے اپنی شہادت والی انگلی کا اشارہ فرمایا)" اس حدیث کو البانی نے "صحیح ابو داود" میں صحیح کہا ہے۔
مبارکپوری نے "تحفۃ الاحوذی " اور سندی رحمہما اللہ نے "حاشیہ ابن ماجہ" میں اس حدیث کا معنی یہ ذکر کیا ہے کہ: صرف شہادت والی انگلی سے اشارہ اس لیے کرو کہ جسے تم پکار رہے ہو وہ ایک ہے۔
اس حدیث میں احتمال ہے کہ آپ رضی اللہ عنہ نماز کی حالت میں تھے، اور یہ بھی احتمال ہے کہ آپ نماز سے باہر تھے، ہمیں بھی بسیار تلاش کے بعد ایسی کوئی بات نہیں ملی جس سے یہ بات معلوم ہو کہ سعد بن ابی وقاص اس وقت نماز کی حالت میں تھے، اور ہو سکتا ہے کہ اسی احتمال کی وجہ سے کچھ علمائے کرام نے سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کے اس عمل کو نماز میں اور عام اوقات میں دعا کرتے ہوئے شہادت والی انگلی استعمال کرنے کی دلیل بنایا ہے۔
مناوی رحمہ اللہ نے "فيض القدير" (1/238) میں لکھا ہے کہ:
"کچھ اہل علم کا یہ کہنا ہے کہ سعد بن ابی وقاص کا یہ عمل تشہد کی حالت میں تھا، لیکن اس بات کی کوئی دلیل نہیں ہے"انتہی
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ سعد بن ابی وقاص کی مندرجہ بالا حدیث پر تبصرہ کرتے ہوئے کہتے ہیں:
"اہل علم کا اس حدیث کے مفہوم کے متعلق کہنا ہے کہ : "ایک انگلی سے اشارہ کرو، کیونکہ تم جسے پکار رہے ہو، وہ بھی ایک ہی ہے" اس حدیث میں بالکل واضح صراحت ہے کہ یہاں اشارہ اللہ کی طرف ہے، کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سعد بن ابی وقاص کو فرمایا: (ایک ، ایک) یعنی: اشارہ کرتے ہوئے بھی ایک ہی انگلی کا استعمال کرو، چنانچہ اگر اشارہ غیر اللہ کی جانب ہوتا تو ایک یا زیادہ انگلیوں سے اشارہ کرنے پر کوئی فرق نہیں پڑتا، لہذا اس سے معلوم ہوا کہ جب اشارہ اللہ تعالی کی طرف تھا ، اور وہ صرف ایک ہی ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سعد بن ابی وقاص کو حکم دیا کہ صرف ایک ہی انگلی سے اشارہ کریں، دو انگلیوں سے اشارہ مت کریں، اسی طرح کثرت سے ایسی احادیث ملتی ہیں جن سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ عام حالات کیساتھ ساتھ نماز میں دعا کے وقت ،اور جمعہ کے دن منبر پر دعا کے وقت انگلی سے اشارہ کیا جائے " انتہی
"بيان تلبيس الجهمية" (2/443)
بہوتی حنبلی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"نماز یا عام اوقات میں دعا کرتے ہوئے دائیں ہاتھ کی شہادت والی انگلی سے اشارہ کرے" انتہی
"كشاف القناع" (1/356-357)
خلاصہ یہ ہوا کہ:
دعا کے وقت شہادت والی انگلی سے اشارہ کرنا اہل علم کے ہاں ثابت شدہ سنتوں میں سےہے، اگرچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا عام طریقہ کار ہاتھ اٹھا کر دعا کرنا ہی تھا، لیکن اگر کوئی شخص اپنی سہولت کو مد نظر رکھتے ہوئے کسی بھی طریقے کو اپنا لے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے، بلکہ ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں:
"مانگنے کا طریقہ یہ ہے کہ: اپنے دونوں ہاتھوں کو کندھوں کے برابر یا کندھوں کے قریب تک اٹھاؤ
استغفار یہ ہے کہ: اپنی ایک [شہادت والی] انگلی سے اشارہ کرو
اور گڑاگڑا کر دعا یہ ہے کہ: اپنے دونوں ہاتھ مکمل طور پر پھیلا دو" ابو داود: (1489) البانی رحمہ اللہ نے اسے "صحیح ابوداود "میں صحیح کہا ہے۔
ابن رجب حنبلی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"دعا میں ہاتھ اٹھانے سے متعلق نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے مختلف طریقے منقول ہیں، ان میں صرف ایک شہادت والی انگلی سے اشارہ کرنا بھی شامل ہے، یہ بھی آپ سے منقول ہے کہ آپ نے یہ عمل منبر پر دعا کرتے ہوئے بھی کیا ہے، اسی طرح سواری پر بیٹھ کر بھی آپ نے یہی عمل فرمایا۔۔۔
اسی طرح آپ سے ہاتھ اٹھانے کا یہ طریقہ بھی منقول ہے کہ : آپ نے اپنے دونوں ہاتھوں کی پشت کو قبلے کی جانب کر دیا، اور ہتھیلی کو اپنے چہرے کی جانب کر لیا" انتہی مختصراً
"جامع العلوم والحكم" (صفحہ: 126- 127)
واللہ اعلم.