الحمد للہ.
" اگر آپ كے والد صاحب روزے كى قضاء ميں روزہ ركھنے كى استطاعت ركھتے تھے اور انہوں نے قضاء ميں روزے ركھنے كى سستى كى حتى كہ دوسرا رمضان شروع ہو گيا اور وہ اس رمضان كے بعد فوت ہوگئے تو آپ لوگوں كے ليے افضل و بہتر يہى ہےكہ آپ ميں كوئى شخص ان كى جانب سے دو روزے ركھے كيونكہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" جو شخص فوت ہو جائے اور اس كے ذمہ روزے ہوں تو اس كا ولى اس كى جانب سے روزے ركھے " متفق عليہ.
اور اگر آپ ايك صاع علاقے كى خوراك مسكينوں كو دے ديں جو كہ تقريبا تين كلو بنتى ہے تو يہ كافى ہو جائيگى.
ليكن اگر وہ رمضان المبارك سے قبل روزے ركھنے كى استطاعت نہيں ركھتے تھے يعنى وہ بيمارى كى بنا پر دوسرا رمضان آنے سے قبل دو روزے نہيں ركھ سكے تو پھر نہ تو قضاء ہے اور نہ ہى كھانا دينا كيونكہ انہوں نے كوئى كوتاہى نہيں.
اللہ تعالى ہى توفيق دينے والا ہے، اللہ تعالى ہمارے نبى محمد صلى اللہ عليہ وسلم اور ان كى آل اور صحابہ كرام پر اپنى رحمتيں نازل فرمائے.
مستقل فتوى اينڈ علمى ريسرچ كميٹى سعودى عرب.
الشيخ عبد العزيز بن عبد اللہ بن باز.
الشيخ عبد اللہ بن غديان.
الشيخ صالح الفوزان.
الشيخ عبد العزيز آل شيخ.
الشيخ بكر ابو زيد.