جمعرات 6 جمادی اولی 1446 - 7 نومبر 2024
اردو

گردے صاف کروانے کے لیے نماز مؤخر کرنا جائز ہے؟

سوال

میرے گردے فیل ہو چکے ہیں اور ہفتے میں 3 بار گردے واش کرواتا ہوں، تو کیا جب مشین کے ذریعے گردے واش ہو رہے ہوں تو اس دوران وضو کے بغیر نماز پڑھ سکتا ہوں؟ اور اگر یہ جائز نہیں ہے تو پھر عام طور پر ظہر اور عصر کا وقت گردے واش ہونے کے دوران آتا ہے، اور بسا اوقات گردے واش ہونے کی وجہ سے ہم بہت زیادہ تھکان محسوس کر رہے ہوتے ہیں تو پھر ہمیں کچھ دیر آرام کرنا پڑتا ہے جو کہ مغرب تک بھی چلا جاتا ہے، پھر ہم ساری نمازیں جمع کر کے ادا کرتے ہیں، تو کیا یہ صحیح ہے؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اگر ممکن ہو تو گردے صاف کروانے سے پہلے یا بعد میں نماز وقت پر ادا کرنا مریض کے لیے فرض ہے، کیونکہ نماز وقت گزرنے کے بعد یا وقت شروع ہونے سے پہلے ادا کرنا جائز نہیں ہے۔ اور اگر گردے واش ہونے میں اتنا وقت لگتا ہے کہ واشنگ کے بعد نماز پڑھنے کا ارادہ کرے تو نماز کا وقت نکل جائے گا تو ممکن ہو تو نماز کے اول وقت میں نماز ادا کر لے، اور اگر گردوں کی صفائی کے بعد ظہر کے ساتھ عصر یا پھر مغرب کے ساتھ عشا کا وقت بھی نکلنے کا خدشہ بھی ہو تو ظہر کو عصر کے ساتھ ظہر کے وقت میں، اور عشا کو مغرب کے ساتھ مغرب کے وقت میں جمع تقدیم کر کے ادا کر لے۔

لیکن اگر گردوں کی دھلائی کا آغاز نماز کا وقت شروع ہونے سے پہلے ہو جائے ، یا نماز کے اول وقت میں شروع ہو جائے اور مریض نماز ادا نہ کر پائے تو پھر ظہر کو عصر کے ساتھ عصر کے وقت میں، یا مغرب کو عشا کے ساتھ عشا کے وقت میں مؤخر کر کے ادا کر لے؛ کیونکہ یہ شخص مریض کے حکم ہے۔ تاہم اگر نماز کو وقت پر ادا کرنے سے پہلے گردے واش کروانا لازم ہو اور واشنگ کا عمل نماز کا وقت گزرنے کے بعد ہی مکمل ہو گا، اور یہ نماز ایسی ہے کہ اسے بعد والی نماز کے ساتھ جمع بھی نہیں کیا جا سکتا مثلاً واشنگ عصر کی نماز کا وقت ہونے کے بعد شروع ہو، یا نماز فجر کا وقت شروع ہونے سے پہلے تو پھر اس نماز کو مؤخر کیا جا سکتا ہے، اس لیے اس نماز کو گردوں کی صفائی کے بعد قضا کرے گا چاہے نماز کا وقت گزر چکا ہو؛ کیونکہ یہاں ضرورت ہے، اور اللہ تعالی کا فرمان ہے: فَاتَّقُوا اللَّهَ مَا اسْتَطَعْتُمْ ترجمہ: حسب قدرت احکاماتِ الہیہ پر عمل کرو۔[التغابن: 16] اور اسی طرح فرمانِ باری تعالی ہے: لَا يُكَلِّفُ اللَّهُ نَفْساً إِلاَّ وُسْعَهَا ترجمہ: اللہ تعالی کسی بھی جان کو اس کی وسعت سے زیادہ مکلف نہیں بناتا۔[البقرۃ: 286]

اور اسی طرح نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو جنگ احزاب کے موقع پر مشرکین سے جنگ کی وجہ سے نماز عصر کو مغرب کے بعد ادا کرنا پڑا تھا، آپ نے سورج غروب ہونے کے بعد عصر کی نماز پڑھی پھر مغرب کی نماز ادا فرمائی۔

اللہ تعالی عمل کی توفیق دینے والا ہے، درود و سلام ہوں ہمارے نبی محمد، آپ کی آل اور صحابہ کرام پر" ختم شد
دائمی کمیٹی برائے فتاوی و علمی تحقیقات

الشيخ عبد العزيز بن عبد الله آل الشيخ   الشيخ عبد الله بن غديان        الشيخ صالح الفوزان   الشيخ بكر ابو زید۔

فتاوی دائمی فتوی کمیٹی-دوسرا ایڈیشن (9/107 – 109)

ماخذ: فتاوی دائمی فتوی کمیٹی-دوسرا ایڈیشن (9/107 – 109)