سوموار 22 جمادی ثانیہ 1446 - 23 دسمبر 2024
اردو

رشتہ طلب كرنے والے كا كہنا كہ " كيا تم اپنى بيٹى كى شادى ميرے ساتھ كرتے ہو تو باپ نے مذاق ميں كہا جاؤ لے جاؤ تو كيا نكاح ہو جائيگا ؟

131337

تاریخ اشاعت : 28-02-2010

مشاہدات : 5820

سوال

ايك شخص ميرا رشتہ طلب كرنے آيا اور سب اتفاق كر لينے اور مہر پر بھى اتفاق ہونے كے بعد ميرے والد كو كہنے لگا اور اس كى نيت ميں تھا وہ مجھ سے شادى كريگا" كيا تم ميرے ساتھ اب اپنى بيٹى كى شادى كرتے ہو ميں اسے اپنے ساتھ لے كر جا رہا ہوں " ميرے والد نے مذاق ميں ہى اسے كہا جاؤ سلامتى كے ساتھ اسے لے جاؤ، يہ سب كچھ پانچ مردوں اور بہت سارى عورتوں كے سامنے ہوا.
اس كے بعد وہ شخص دعوى كرنے لگا كہ شريعت كے مطابق ميں اس كى بيوى بن چكى ہوں، اور جب تك وہ طلاق نہ دے ميں كسى اور سے شادى نہيں كر سكتى، اس كى دليل اس نے يہ حديث دى كہ:
" دو چيزيں حقيقت ميں بھى حقيقى ہيں اور مذاق ميں بھى حقيقت ، ايك تو شادى اور دوسرى طلاق "
كيا يہ حديث صحيح ہے، اور كيا اس كى كلام صحيح ہے كہ ميں اسكى بيوى ہوں اور اس كے متعلق علماء كا كوئى اختلاف بھى پايا جاتا ہے يا نہيں ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

نكاح كے اركان ميں: ايجاب و قبول شامل ہے، اور ايجاب يہ ہے كہ عورت كا ولى كہے ميں نے اپنى بيٹى كى تيرے ساتھ شادى كى اور قبول يہ ہے كہ رشتہ طلب كرنے والا كہے ميں نے قبول كيا.

آپ نے جو كچھ بيان كيا ہے وہ تين مسائل پر مشتمل ہے:

پہلا مسئلہ:

ميں نے تيرے ساتھ نكاح كيا يا شادى كي كے الفاظ كے بغير نكاح ہونا.

دوسرا مسئلہ:

ولى كے ايجاب سے قبل ہى خاوند كا قبول كرنے كے الفاظ بول دينا.

تيسرا مسئلہ:

خاوند كى جانب سے قبول كے الفاظ سوال يا استفہام كى صورت ميں صادر ہونا.

پہلے مسئلہ كے بارہ ميں فقھاء كا اختلاف ہے: احناف اور مالكى حضرات كہتے ہيں نكاح اور شادى كے الفاظ كے بغير بھى نكاح ہو جاتا ہے، اور اس ميں انہوں نے تفصيل بيان كى ہے.

اور راجح بھى يہى ہے كہ ہر وہ لفظ جو نكاح پر دلالت كرتا ہو اس سے نكاح ہو جاتا ہے، اس ليے ولى كا كہنا " سلامتى كے ساتھ اسے لے لو " يہ ايسا لفظ ہے جو رضامندى و قبول پر دلالت كرتا ہے "

ديكھيں: الشرح الممتع ( 2 / 38 ).

دوسرا مسئلہ: كہ قبول كو ايجاب پر مقدم كرنا اور ايجاب سے پہلے ہى ہونے والا خاوند قبول كر لے، تو حنابلہ كے ہاں اس سے نكاح صحيح نہيں ہوتا، ليكن جمہور كے ہاں اس سے نكاح صحيح ہے.

اس بنا پر يہاں ايجاب سے پہلے ہى قبول مقدم كر ليا گيا ہے جو كہ حنابلہ كے ہاں صحيح نہيں يعنى ولى كے ايجاب سے قبل ہى قبول كرنا.

ابن قدامہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" جب قبول كو ايجاب پر مقدم كر ليا جائے تو ايك روايت ميں صحيح نہيں، چاہے وہ ماضى كے الفاظ كے ساتھ ہو مثلا تو نے اپنى بيٹى كى شادى كى تو وہ كہے ميں نے تيرے ساتھ شادى كر دى، يا پھر طلب كے الفاظ ميں مثلا تم اپنى بيٹى كى ميرے ساتھ شادى كر دو، تو وہ كہے ميں نے اس كى شادى تيرے ساتھ كر دى.

اور ابو حنيفہ مالك اور شافعى رحمہم اللہ كہتے ہيں ان سب ميں نكاح صحيح ہوگا؛ كيونكہ ايجاب اور قبول دونوں پائے گئے ہيں، تو بالكل اسى طرح جب ايجاب مقدم ہو تو يہ بھى صحيح ہوگا.

اور صحيح نہ ہونے كى دليل يہ ہے كہ: قبول تو ايجاب كا ہوتا ہے، اور جب يہ ايجاب سے قبل ہى قبول پايا جائے تو يہ قبول نہيں ہوگا كيونكہ اس كا معنى ہى نہيں پايا گيا، تو اس طرح يہ صحيح نہيں، بالكل ايسے ہى جسے استفہام كے الفاظ سے مقدم ہو " انتہى

ديكھيں: المغنى ( 7 / 61 ).

اور رہا تيسرا مسئلہ وہ يہ كہ: خاوند سے استفہام كے لفظ صادر ہونا تو اس ميں بھى اختلاف پايا جاتا ہے:

حنابلہ كے ہاں صحيح ہے.

اور شافعيہ كے ہاں اس كے صحيح ہونے كے شرط يہ ہے كہ خاوند ولى كى موافقت كے بعد كہے.

اور احناف اس كے بارہ ميں حالات كو ديكھتے ہيں كہ وہ دونوں كس حالت پر تھے، اگر تو وہ مجلس عقد نكاح كے ليے ہو تو پھر عقد نكاح ہو جائيگا، اور اگر صرف وعدہ كے ليے ہے تو پھر وہ وعدہ ہى شمار ہو گا.

چنانچہ الموسوعۃ الكويتيہ ميں درج ہے:

" رہا استفہام كا صيغہ تو اس ميں احناف كہتے ہيں كہ اگر استفہام كى صراحت ہو تو پھر حالت كى فہم معتبر ہوگى، شرح طحاوى ميں ہے: اگر كہے كہ: كيا تم نے وہ مجھے دے دى ؟ تو وہ كہے ميں نے دے دى.

اگر تو يہ مجلس وعدہ كے ليے تھى تو پھر وعدہ ہے، اور اگر عقد نكاح كى مجلس تھى تو پھر عقد نكاح ہوگا.

رحمتى كہتے ہيں: ہميں معلوم ہوا كہ اعتبار ان كى كلام سے جو ظاہر ہو وہ ہے، ان كى نيت معتبر نہيں، كيا آپ ديكھتے نہيں كہ يہ نكاح تو مذاق ميں بھى ہو جاتا ہے، حالانكہ مذاق كرنے والے نے نكاح كى نيت نہيں كى ہوتى "

اور شافعى كہتے ہيں: اگر خاوند كہے: كيا تم اپنى بيٹى كى ميرے ساتھ شادى كرتے ہو ؟ اور ولى كہے: ميں نے تيرے ساتھ شادى كر دى، تو عقد نكاح نہيں ہوگا، مگر يہ كہ وہ رشتہ طلب كرنے اس كے بعد كہے ميں نے شادى كر لى "

اور حنابلہ كى رائے يہ ہے كہ: جب ايجاب سے قبل استفہام كے الفاظ مقدم ہوں تو عقد نكاح صحيح نہيں " انتہى

ديكھيں: الموسوعۃ الكويتيۃ ( 41 / 239 ).

مزيد تفصيل كے ليے حاشيۃ ابن عابدين ( 3 / 11 ) اور امام شافعى كى كتاب الام ( 5 / 25 ) اور روضۃ الطالبين ( 7 / 39 ) اور كشاف القناع ( 5 / 40 ) كا مطالعہ كريں.

اس ليے كہ رشتہ مانگنے والے نے سوال اور استفہام كا صيغہ استعمال كيا اور وہ بھى ولى كى كلام سے پہلے اور ولى كى جانب سے سے صادر الفاظ " سلامتى كے ساتھ لےجاؤ " كے تھے تو حنابلہ كے ہاں يہ نكاح صحيح نہيں؛ كيونكہ قبول كو ايجاب پر مقدم كيا گيا ہے، اور وہ بھى استفہام كے الفاظ ميں، اور اس ليے بھى كہ ولى نے نكاح يا شادى كے الفاظ نہيں بولے.

اور شافعيہ كے ہاں بھى صحيح نہيں كيونكہ اس نے ولى كى موافقت كے بعد " ميں نے شادى كى " كے الفاظ نہيں بولے، اور اس ليے بھى كہ ولى نے شادى اور نكاح كے الفاظ كى بجائے كوئى اور الفاظ كہے ہيں.

اور احناف كے ہاں اس ليے صحيح نہيں كہ اس مجلس ميں جو حالت تھى وہ منگنى اور وعدہ كى تھى نہ كہ عقد نكاح كى مجلس تھى، اس بنا پر ان الفاظ كے ساتھ نكاح نہيں ہوا.

اور وہ حديث جو آپ نے پيش كى ہے وہ ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ سے مروى ہے وہ بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" تين اشياء حقيقت ميں بھى حقيقي ہيں، اور مذاق ميں بھى حقيقت پر مبنى ہيں، نكاح اور طلاق اور رجوع "

اسے ابو داود حديث نمبر ( 2194 ) اور ترمذى حديث نمبر ( 1184 ) اور ابن ماجہ حديث نمبر ( 2039 ) نے روايت كيا ہے، اور اس كے صحيح اور ضعيف ہونے ميں اختلاف ہے اور علامہ البانى رحمہ اللہ نے ارواء الغليل حديث نمبر ( 1826 ) ميں اسے حسن قرار ديا ہے.

چنانچہ اگر ولى كى جانب سے ايجاب اور پھر خاوند كى جانب سے قبول حاصل ہو، اور يہ ماضى كے صيغہ اور نكاح يا شادى كے صيغہ كے ساتھ ہو اور دو گواہ بھى ہوں اور عقد نكاح كرنے والے دونوں يا ايك مذاق كر رہا ہو تو جمہور فقھاء كے ہاں سابقہ حديث كى بنا پر يہ نكاح صحيح ہوگا.

مزيد آپ فتح القدير ( 3 / 199 ) اور المغنى ( 7 / 61 ) اور كشاف القناع ( 5 / 40 ) اور حاشيۃ الدسوقى ( 2 / 221 ) اور بلغۃ السالك ( 2 / 350 ) اور نھايۃ المحتاج ( 6 / 209 ) اور روضۃ الطالبين ( 8 / 54 ) كا مطالعہ كريں.

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب