الحمد للہ.
زانى مرد اور زانيہ عورت كے ليے زنا سے توبہ كيے بغير شادى كرنا جائز نہيں؛ كيونكہ اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:
" زانى مرد سوائے زانيہ عورت كے يا مشرك عورت كے كسى اور سے شادى نہيں كرتا، اور زانيہ عورت سوائے زانى مرد يا مشرك مرد كے كسى اور سے شادى نہيں كرتى، اور يہ مومنوں پر حرام كيا گيا ہے " النور ( 3 ).
اس ليے اگرتو آپ دونوں نے شادى سے قبل توبہ كر لى تھى تو آپ كا نكاح صحيح ہے، اور اگر عقد نكاح توبہ سے پہلے ہوا ہے تو اس ميں فقھاء كا اختلاف پايا جاتا ہے:
جمہورفقھاء كرام كے ہاں زانى مرد اور زانى عورت كا نكاح صحيح ہے چاہے انہوں نے توبہ نہ بھى كى ہو.
اور حنابلہ كے ہاں زانى عورت كا توبہ سے قبل نكاح كرنا صحيح نہيں، انہوں نے زانى كا نكاح صحيح ہونے ميں توبہ كى شرط نہيں لگائى "
ديكھيں: الانصاف ( 8 / 132 ) اور كشف القناع ( 5 / 83 ).
اس قول كى بنا پر اگر آپ نے عقد نكاح سے قبل توبہ كر لى تھى تو آپ كا نكاح صحيح ہے، وگرنہ احتياط اسى ميں ہے نكاح كى تجديد كر لى جائے.
اور پھر توبہ اس طرح ہوتى ہے كہ اپنے كيے پر نادم ہو اور آئندہ يہ برائى نہ كرنے كا عزم كيا جائے، اس ليے اگر آپ حرام كام پر نادم تھيں اور آئندہ اسے ترك كرنے كا عزم كر ركھا تھا اور اس كے بعد آپ نے شادى كى تو يہ آپ كى توبہ ہے.
اور استبراء رحم يا عدت كے متعلق بھى علماء كا اختلاف ہے، احناف اور شافعي حضرات كے ہاں يہ لازم نہيں ہے.
ہم آپ كو يہى نصيحت كرتے ہيں كہ اگر آپ كے ليے ولى كو حقيقت حال بتائے بغير تجديد نكاح ممكن ہو تو اسى ميں احتياط ہے.
عقد نكاح كا طريقہ يہ ہے كہ آپ كا ولى دو گواہوں كى موجودگى ميں آپ كے خاوند كو كہے: ميں نے اپنى فلاں بيٹى يا بہن كا آپ سے نكاح كيا، اور آپ كا خاوند كہے: ميں نے قبول كيا.
اور اگر حرام تعلقات كى خبر ديے بغير تجديد نكاح ممكن نہ ہو تو ہم اميد كرتے ہيں كہ ايسا آپ كے ليے لازم نہيں، بلكہ جمہور علماء كے قول كے مطابق آپ كا نكاح صحيح ہے اور آپ اپنے نكاح پر ہى ہيں.
اللہ تعالى سے دعا ہے كہ وہ آپ كى اصلاح فرمائے اور آپ كى توبہ قبول كرے.
واللہ اعلم .