الحمد للہ.
خود لذتی گناہ ہے، ہم نے اس کا جواب سوال نمبر: (329 ) کے جواب میں وضاحت سے دے دیا ہے، تاہم یہ زنا جیسا عمل نہیں ہے کہ جس سے حد واجب ہو جائے؛ کیونکہ حد کا موجب بننے والا زنا جماع ہی ہے۔
اس غلط عادت میں مبتلا شخص کو فوری طور پر اسے ترک کر دینا چاہیے، اللہ تعالی اسے اپنے گناہ کی بخشش مانگے، اور اپنی نیچ حرکت پر اظہار ندامت کرے، اور یہ یقین رکھے کہ خود لذتی کے دین، عقل، اور بدن سب پر منفی اثرات پڑتے ہیں، تاہم اس کے لیے کوئی خاص سزا شریعت میں وارد نہیں ہوئی، اس کی سزا کا معاملہ اللہ تعالی کے سپرد ہے، کیونکہ یہ ایسا گناہ ہے جس سے حد واجب نہیں ہوتی۔
جب انسان کسی بھی گناہ سے سچی توبہ کر لے، چاہے وہ خود لذتی ہے یا کوئی بھی عمل ہے، تو اللہ تعالی اس کی توبہ قبول فرماتا ہے، اور اس کا گناہ اس طرح معاف فرماتا ہے کہ گویا وہ تھا ہی نہیں، فرمانِ باری تعالی ہے:
وَهُوَ الَّذِي يَقْبَلُ التَّوْبَةَ عَنْ عِبَادِهِ وَيَعْفُو عَنْ السَّيِّئَاتِ وَيَعْلَمُ مَا تَفْعَلُونَ
ترجمہ: وہی ذات ہے جو اپنے بندوں کی توبہ قبول کرتی ہے، اور برائیاں مٹا دیتی ہے، اور اسے تمہارے عملوں کا علم ہے۔[الشوری: 25]
اسی طرح فرمانِ باری تعالی ہے:
قُلْ يَاعِبَادِي الَّذِينَ أَسْرَفُوا عَلَى أَنْفُسِهِمْ لَا تَقْنَطُوا مِنْ رَحْمَةِ اللَّهِ إِنَّ اللَّهَ يَغْفِرُ الذُّنُوبَ جَمِيعًا إِنَّهُ هُوَ الْغَفُورُ الرَّحِيمُ
ترجمہ: بتلا دیجیے: اپنی جانوں پر زیادتی کرنے والے اے میرے بندو! تم اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہونا، یقیناً اللہ تعالی تمام گناہ معاف کرنے والا ہے، یقیناً وہی بخشنے والا اور نہایت رحم کرنے والا ہے۔[الزمر: 53]
تو یہ آیت توبہ کرنے والے کے لیے ہے کہ اللہ تعالی ان تمام گناہوں کو معاف فرما دیتا ہے جن سے انسان نے توبہ کی ہوتی ہے۔
پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان بھی ہے کہ: (گناہ سے توبہ کرنے والا ایسے ہی جیسے اس نے گناہ کیا ہی نہیں) ابن ماجہ: (4250)، اس حدیث کو البانی رحمہ اللہ نے صحیح ابن ماجہ میں صحیح قرار دیا ہے۔
واللہ اعلم