سوموار 24 جمادی اولی 1446 - 25 نومبر 2024
اردو

مسجد ميں عقد نكاح كرنا

132420

تاریخ اشاعت : 19-07-2010

مشاہدات : 18453

سوال

كيا آدمى كے ليے مسجد ميں عقد نكاح كرنا جائز ہے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

جمہور اہل علم كے ہاں مسجد ميں نكاح كرنا مستحب ہے، اس سلسلہ ميں انہوں نے ايك حديث سے استدلال كيا ہے جو اس معنى پر دلالت كرتى ہے.

الموسوعۃ الفقھيۃ ميں درج ہے:

" جمہور فقھاء نے بطور بركت اور اعلان كى خاطر مسجد ميں عقد نكاح كرنا مستحب قرار ديا ہے.

عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا سے مروى ہے كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" اس نكاح كا اعلان كرو ( يعنى نكاح اعلانيہ كرو ) اور اسے مساجد ميں كيا كرو اور اس پر دف بجايا كرو " انتہى

ديكھيں: الموسوعۃ الفقھيۃ ( 37 / 214 ).

يہ حديث امام ترمذى نے سنن ترمذى حديث نمبر ( 1089 ) ميں روايت كي ہے ليكن يہ حديث ضعيف ہے اسے ابن حجر اور علامہ البانى وغيرہ نے ضعيف قرار ديا ہے.

رہا اس كا معنى تو وہ يہ ہے: ان كا يہ كہنا كہ بطور بركت مسجد ميں نكاح كرنا.

يہاں يہ اشكال ہے اگر واقعى معاملہ ايسا ہوتا تو نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم اپنے نكاح بھى مسجد ميں ہى كرنے كى كوشش كرتے، اور اسى طرح صحابہ كرام بھى.

اس بنا پر يہاں يہ كہنا ظاہر معلوم ہوتا ہے كہ:

اصلا مسجد ميں نكاح كرنا جائز تو ہے، خاص كر بعض اوقات يا پھر برائى سے دور رہنے كے ليے، كيونكہ اگر كسى اور جگہ نكاح كيا جائے تو وہاں برائياں ہوتى ہيں.

ليكن ہر نكاح ميں ايسا كرنا، يا پھر خاص كر اس كى فضيلت كا اعتقاد ركھنا بدعت ہے، اس پر متنبہ كرنا اور لوگوں كو اس بنا پر يہ فعل كرنے سے روكنا ضرورى ہے.

اور اگر عقد نكاح ميں مرد و عورت كا اختلاط ہو يا پھر وہاں گانا بجانا استعمال كيا جائے اور يہ عقد نكاح مسجد ميں ہو تو اس حرمت باہر كى بنسبت اور بھى شديد ہو جائيگى؛ كيونكہ اس ميں اللہ كے گھر كى حرمت پامال كى گئى ہے.

مسجد ميں عقد نكاح اصل ميں مشروع ہے اور اس كى دليل وہ حديث ہے جس ميں ايك عورت نے اپنے آپ كو نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے ليے ہبہ كرنے ذكر ہے، جسے بخارى اور مسلم نے روايت كيا ہے كہ اس عورت كا نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے ايك صحابى كے ساتھ مسجد ميں نكاح كيا تھا ليكن اس كے بعد دوبارہ ايسا واقعہ نہيں ملتا.

مستقل فتوى كميٹى كے علماء سے درج ذيل سوال كيا گيا:

برائے مہربانى مسجد ميں نكاح كرنے كا شرعى حكم واضح كريں، يہ علم ميں رہے كہ عقد نكاح اسلامى تعليمات كے مطابق ہو گا اور اس ميں مرد و عورت كا اختلاط بھى نہيں اور نہ ہى گانا بجانا ہے ؟

كميٹى كے علماء كا جواب تھا:

" اگر تو واقعتاً ايسا ہى جيسا بيان ہوا ہے تو پھر مسجد ميں عقد نكاح كرنے ميں كوئى حرج نہيں.

الشيخ عبد العزيز بن باز.

الشيخ عبد الرزاق عفيفى.

الشيخ عبد اللہ بن غديان.

الشيخ عبد اللہ بن قعود.

ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 18 / 110 ).

كميٹى سے يہ سوال بھى كيا گيا:

كيا مساجد ميں نكاح كرنا پر لزوم اختيار كرنا مستحب سنت ميں شامل ہوتا ہے يا كہ بدعت ؟

كميٹى كا جواب تھا:

" مساجد وغيرہ ميں عقد نكاح كرنے كے معاملہ ميں شرعى وسعت ہے، اور ہمارے علم كے مطابق تو كوئى ايسى دليل نہيں ملتى جس سے يہ معلوم ہوتا ہو كہ خاص كر مساجد ميں نكاح كرنا سنت ہے، اس ليے مساجد ميں نكاح كا التزام كرنا بدعت ہے.

الشيخ عبد العزيز بن باز.

الشيخ عبد الرزاق عفيفى.

الشيخ عبد اللہ بن قعود.

ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 18 / 110 - 111 ).

اور علماء كميٹى كا يہ بھى كہنا ہے:

" مساجد ميں نكاح كرنا سنت نہيں، اور مساجد ميں نكاح پر ہميشگى اور سنت كا اعتقاد ركھنا بدعت ہے؛ كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے اس كا ثبوت نہيں ملتا، بلكہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" جس كسى نے بھى ہمارے اس دين ميں كوئى نيا كام ايجاد كيا جو اس ميں سے نہيں تو وہ مردود ہے "

اور اگر اس نكاح كى محفل ميں بےپرد عورتيں بھى شامل ہوں، اور تكليف دينے والے بچے بھى ہوں تو پھر ان خرابيوں كى بنا پر مسجد ميں نكاح سے منع كيا جائيگا.

الشيخ عبد العزيز بن باز.

الشيخ عبد الرزاق عفيفى.

الشيخ عبد اللہ بن غديان.

ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ و الافتاء ( 18 / 111 - 112 ).

اور شيخ محمد بن صالح العثيمين رحمہ اللہ كہتے ہيں:

مسجد ميں عقد نكاح كے استحباب كے متعلق كسى اصل اور دليل كا تو ہميں علم نہيں، ليكن اگر ولى اور خاوند مسجد ميں موجود ہوں تو اس ميں كوئى حرج نہيں؛ كيونكہ يہ خريد و فروخت ميں شامل نہيں، كيونكہ يہ معلوم ہے كہ مسجد ميں خريد و فروخت كرنا حرام ہے.

ليكن عقد نكاح خريد و فروخت ميں داخل نہيں، اس ليے اگر مسجد ميں عقد نكاح ہو تو اس ميں كوئى حرج نہيں ہے، ليكن اس كو اس صورت ميں مستحب كہنا كہ اسے گھر سے نكال كر مسجد ميں لے جائيں، يا پھر عقد نكاح كے ليے مسجد كا وعدہ ہو تو يہ دليل كا محتاج ہے، اور ميرے علم كے مطابق تو اس كى كوئى دليل نہيں.

ديكھيں: لقاء الباب المفتوح ( 167 ) سوال نمبر ( 12 ).

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب