الحمد للہ.
بچے کے ملک میں یا کسی اور ملک میں عقیقے کا گوشت تقسیم کرنا جائز ہے، اس معاملے میں وسعت ہے۔
شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"عقیقے کے گوشت کو کس طرح کھائیں اور تقسیم کریں؟
تو اس بارے میں یہ ہے کہ اس گوشت کو کھا بھی سکتے ہیں، تحفہ بھی دے سکتے ہیں اور مستحقین میں تقسیم بھی کر سکتے ہیں، نیز اس کے لیے مقدار بھی متعین نہیں ہے، جتنا مرضی کھائے، جتنا مرضی تحفہ دے دے، اور جتنا مرضی تقسیم کر دے، اور اگر اپنے شہر میں یا شہر سے باہر رشتہ داروں اور دوستوں کو جمع کر کے انہیں دعوت کھلا دے تو اس میں بھی کوئی حرج نہیں ہے، تاہم اس صورت میں غریب لوگوں کو ضرور کچھ نہ کچھ دے۔ ایسے بھی کر سکتا ہے کہ پکا کر کھلا دے یا کچا گوشت ہی تقسیم کر دے، دونوں طریقے ہی درست ہیں۔" ختم شد
"فتاوى نور على الدرب" (228 / 5)
البتہ علمائے کرام کے اس بارے میں مختلف اقوال ہیں کہ کہاں پر ذبح کرنا افضل ہے؟ کیا جس ملک میں بچہ رہائش پذیر ہے وہاں یا جہاں پر والد موجود ہے؟
تو یہ اختلاف افضلیت کے بارے میں ہے صحیح اور غلط ہونے کے بارے میں نہیں ہے۔
جیسے کہ ابن حجر ہیتمی رحمہ اللہ نے ذکر کیا ہے کہ:
"عقیقہ بچے کے ملک میں ہو گا اور اس لیے کہ فطرانہ بھی اسی جگہ ادا کیا جاتا ہے جہاں پر صاحب فطرانہ موجود ہو، چنانچہ انہوں نے اس موقف کو درست قرار دیا کہ عقیقہ کرنے والا یعنی والد یا کوئی اور عقیقہ کرنے والا جہاں ہو وہاں پر ذبح کرنا بہتر ہے؛ کیونکہ عقیقہ کرنے کا حکم اسی شخص کو ہے۔" ختم شد
الفتاوی الکبری: (4/257)
جبکہ ابن جبرین حفظہ اللہ نے یہ موقف اختیار کیا ہے کہ:
بچے کے ملک میں عقیقہ ذبح کرنا افضل ہے، آپ سے پوچھا گیا کہ والد کے ملک میں عقیقے کا جانور ذبح ہو گا، یا جہاں پر بچہ موجود ہے؟ دلیل کی روشنی میں واضح کریں۔
تو انہوں نے جواب دیا:
"افضل یہ ہے کہ جہاں بچہ ہے وہاں پر جانور ذبح کیا جائے، اور اگر والد کسی اور ملک میں ہے تو وہ عقیقے کی رقم ارسال کر کے ذبح کرنے کی ذمہ داری کسی کی لگا دے اور کھانے کی دعوت دے ، اس طرح بچے کے لیے دعا کا اہتمام بھی ہو جائے گا اور برکت کی دعا بھی۔ واللہ اعلم" ختم شد
ماخوذ از شیخ ابن جبرین ویب سائٹ
شیخ البانی رحمہ اللہ سے پوچھا گیا کہ کیا عقیقے میں یہ شرط ہے کہ جانور اسی ملک میں ذبح کیا جائے جہاں بچہ موجود ہے؟
تو انہوں نے جواب دیا: نہیں۔
علمائے کرام نے عقیقہ اور جانور ذبح کرنے کے حوالے سے ایک بہت ہی اہم مسئلے پر توجہ مبذول کروائی ہے کہ یہ کوئی قابل تعریف عادت نہیں ہے کہ پیسے بھیج کر کسی کو جانور ذبح کرنے کی ذمہ داری اس لیے سونپ دے کہ وہاں کے لوگ غریب ہیں؛ کیونکہ مطلوب یہ ہے کہ مسلمان خود جانور ذبح کرے، یا کم از کم جانور ذبح کرتے وقت وہاں پر موجود ہو تا کہ اسے بھی احساس ہو کہ جانور ذبح کر کے قرب الہی مقصود ہے۔
یہاں یہ بات واضح ہو کہ محض مال خرچ کرنا مقصد نہیں، کہ اسلامی شعائر کی روح ہی مفقود ہو جائے، کیونکہ شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ سے پوچھا گیا:
عقیقے کا گوشت بیرون ملک ارسال کرنے کا کیا حکم ہے؟ واضح رہے کہ انہیں علم ہے کہ اس علاقے کے لوگوں کو گوشت کی کوئی ضرورت نہیں ہے؛ کیونکہ وہ خود بھی اپنے ملک میں الگ سے جانور ذبح کر سکتے ہیں؟
تو انہوں نے جواب دیا:
"اسی سوال کی مناسبت سے میں تمام حاضرین اور سامعین کے سامنے یہ بات واضح کرنا چاہتا ہوں کہ عقیقہ، ہدی، قربانی وغیرہ میں محض گوشت کھانا مقصود نہیں ہوتا، کیونکہ گوشت کھانا ثانوی اور ذیلی معاملہ ہے۔
اصل مقصود یہ ہے کہ: جانور ذبح کر کے قرب الہی حاصل کرے، یہ اصل ہدف ہے، جبکہ گوشت کے بارے میں تو اللہ تعالی نے واضح فرما دیا ہے کہ:
لَنْ يَنَالَ اللَّهَ لُحُومُهَا وَلا دِمَاؤُهَا وَلَكِنْ يَنَالُهُ التَّقْوَى مِنْكُمْ
ترجمہ: قربانیوں کے گوشت اور خون بالکل بھی اللہ تعالی تک نہیں پہنچتے، اللہ تعالی تک تمہارا تقوی پہنچتا ہے۔[الحج: 37]
جب یہ بات واضح ہو گئی تو ان لوگوں کی غلطی بھی واضح ہو گئی کہ جو لوگ کسی کو پیسے دے کر کہیں اور جانور ذبح کرنے کا کہتے ہیں۔ یا پھر اپنے بچوں کا عقیقہ کسی اور جگہ کرنے کا کہتے ہیں؛ کیونکہ اس طرح کرنے سے اصل مقصد فوت ہو جاتا ہے، بلکہ اہم ترین ہدف ضائع ہو جاتا ہے کہ جانور ذبح کر کے قربِ الہی کے حصول سے محروم رہتے ہیں؛ آپ کو بسا اوقات پتہ ہی نہیں ہوتا کہ ذبح کرنے والا کون ہے؟ ممکن ہے کہ کوئی بے نمازی شخص جانور ذبح کر دے اور ذبیحہ ہی حلال نہ رہے، یا ایسا شخص جانور ذبح کر دے جو اللہ کا نام ہی نہ لے اس طرح جانور حرام ہو جائے گا، یا یہ شخص جانور کی رقم تو بھیج دے لیکن مطلوبہ صفات کا حامل جانور ہی نہ خریدا جائے۔
لہذا یہ بڑی غلطی ہے کہ اپنی رقم دوسری جگہ بھیج کر قربانیاں یا عقیقے کروائے جائیں، ہم اسے یہ کہیں گے کہ: اگر آپ میں استطاعت ہے تو آپ خود اپنے ہاتھ سے ذبح کریں، یا اپنے کسی نمائندے کے ذریعے ذبح تو کروائیں لیکن خود موجود ہوں تا کہ تمہیں جانور کے ذبح ہوتے وقت قرب الہی کا احساس ہو، پھر آپ خود بھی اسے کھائیں ؛ کیونکہ آپ کو اس میں سے کھانے کا حکم دیا گیا ہے، جیسے کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے:
فَكُلُوا مِنْهَا وَأَطْعِمُوا الْبَائِسَ الْفَقِيرَ
ترجمہ: پس اس میں سے کھاؤ اور محتاج فقیروں کو بھی کھلاؤ۔[الحج: 28]
بہت سے علمائے کرام اسی آیت کی روشنی میں لازم قرار دیتے ہیں کہ اللہ تعالی کا قرب حاصل کرنے کے لیے جو بھی جانور ذبح کیا جائے چاہے وہ عید کی قربانی ہو یا حج کی یا عقیقہ وغیرہ تو اس میں سے کچھ نہ کچھ ضرور کھائے، لیکن اگر یہ قربانی کسی بہت ہی دور علاقے میں کی جا رہی ہو تو کیا آپ اس میں سے کھا سکتے ہیں؟ بالکل نہیں ۔
اگر آپ چاہتے ہو کہ دور دراز علاقوں کے مسلمانوں کا بھی فائدہ ہو تو پھر آپ انہیں رقم بھیج دیں، ان کی طرف کپڑے اور کھانے پینے کی چیزیں ارسال کریں، لیکن آپ کسی اسلامی عبادت کو دوسری جگہ منتقل کریں تو یہ یقینی بات ہے کہ جہالت پر مبنی عمل ہے۔" ختم شد
"لقاء الباب المفتوح" (23/11)
الشیخ صالح فوزان حفظہ اللہ کہتے ہیں:
"عید کی قربانی اور عقیقے کو مسلمان اپنے ملک اور گھر میں ذبح کرتا ہے اور ان میں سے خود بھی کھاتا ہے اور دوسروں پر صدقہ بھی کرتا ہے، چنانچہ قربانی کے جانور کی قیمت دوسرے ملک میں بھیجنا تو یہ درست نہیں ہے جیسے کہ کچھ عوام الناس اور بعض پڑھے لکھے لوگ بھی اس کام کی دعوت دے رہے ہیں اور اس کی دلیل یہ دیتے ہیں کہ ان علاقوں میں لوگ غریب اور محتاج ہیں!" ختم شد
"المنتقى من فتاوى الفوزان" (50 / 10)
اس سے یہ واضح ہوا کہ عقیقے میں عقیقہ کرنے والے کا خود ذبح کرنا بہت اہمیت کا حامل ہے، یا کم از کم ذبح کے وقت پاس موجود ہونا اور پھر اس میں سے تناول کرنا اور صدقہ کرنا بہت اہمیت رکھتا ہے، تاہم ذبح کرنے کے بعد گوشت کسی جگہ تقسیم کر سکتا ہے۔
اس بارے میں مزید کے لیے آپ سوال نمبر: (8423 ) کا جواب ملاحظہ کریں۔
واللہ اعلم