سوموار 22 جمادی ثانیہ 1446 - 23 دسمبر 2024
اردو

عقد نكاح كے بعد اللہ كى وجود ميں شك كيا تو كيا تجديد نكاح لازمى ہے ؟

132976

تاریخ اشاعت : 17-12-2013

مشاہدات : 4747

سوال

مجھے علم ہے كہ خالق كے وجود ميں شك كرنا دائرہ اسلام سے خارج كر ديتا ہے، ماضى ميں مجھے مشكل حالات سے گزرنا پڑا ان ايام ميں شيطان مجھ پر حاوى ہوگيا اور ميں نے اپنے آپ كو شبہات كے سپرد كر ديا، حتى كہ ايك يا دو روز تو اللہ خالق الملك كے وجود اور الحاد ميں سوچ و بچار كرتا رہا، اور مجھے شك ہوا، اب ميں اس عمل سے توبہ كرتا ہوں اور اللہ سے اميد ركھتا ہوں كہ وہ مجھے معاف فرمائيگا، اس كے بعد ميں نے كلمہ بھى پڑھ ليا ليكن غسل نہيں كيا تھا.
اب شيطان مجھے دو قسم كے وسوسے ڈال رہا ہے: پہلا يہ كہ كلمہ پڑھنے سے قبل ميں نے غسل نہيں كيا تھا.
اور دوسرا يہ كہ: اس وقت ميں نے عقد نكاح كيا تھا، ليكن كلمہ پڑھنے كے بعد عقد نكاح كى تجديد نہيں كى، كيا ميرے اس عمل سے نكاح فسخ تو نہيں ہوا، اور كيا مجھے تجديد نكاح كرنا ہو گا ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

اللہ خالق كے وجود ميں شك كرنا كفر اور دين اسلام سے ارتداد ہے، ليكن اگر يہ عارضى وسوسہ ہو اور دل ميں گھر نہ كرے بلكہ انسان اسے دور كرنے كى كوشش كرے اور ناپسند كرتا ہو تو پھر ايسا نہيں، اس كا تفصيلى بيان سوال نمبر ( 131277 ) كے جواب ميں گزر چكا ہے.

ليكن سائل كا يہ كہنا كہ: شك مجھ پر سوار ہو گيا يہ اس كے مرتد ہونے كى دليل ہے، اللہ اس سے محفوظ ركھے.

اور جب وہ توبہ كر كے دين اسلام ميں واپس پلٹ آيا ہے تو ہم اللہ تعالى سے دعا كرتے ہيں كہ وہ اس كى توبہ قبول فرمائے، اور اس كے گناہ معاف كر دے، اللہ سبحانہ و تعالى توبہ كرنے والوں كى توبہ قبول فرماتا ہے، اور بخشش طلب كرنے والوں كے گناہ بخشنے والا ہے.

جيسا كہ اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:

اور بے شك ميں يقينا اس كو بہت بخشنے والا ہوں جو توبہ كرے اورايمان لائے، اور نيك عمل كرے، پھر سيدھے راستے پر چلے طہ ( 82 ).

اور ايك دوسرے مقام پر ارشاد بارى تعالى ہے:

ان لوگوں سےكہہ ديجئے جنہوں نے كفر كيا،اگر وہ باز آ جائيں تو جو كچھ گزر چكا انہيں بخش ديا جائيگا الانفال ( 38 ).

اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے عمرو بن عاص رضى اللہ تعالى عنہ كو فرمايا تھا:

" كيا تمہيں علم نہيں كہ اسلام اپنے سے پہلے گناہوں كو ختم كر ديتا ہے "

صحيح مسلم حديث نمبر ( 121 ) مسند احمد حديث نمبر ( 17372 ).

دوم:

اگر آپ نے شك كے عرصہ ميں عقد نكاح كيا تھا تو آپ كے ليے تجديد نكاح لازم ہے؛ كيونكہ كافر يا مرتد شخص كا كسى مسلمان عورت سے نكاح جائز نہيں، ليكن اگر عقد نكاح كے بعد شك ہوا ہو تو اس ميں درج ذيل تفصيل ہے:

ا ـ اگر دخول و رخصتى سے قبل تھا تو نكاح فسخ ہو گيا اور آپ كے ليے تجديد نكاح لازم ہے، اور اسے طلاق شمار نہيں كيا جائيگا، بلكہ يہ فسخ نكاح ہے.

ابن قدامہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" جب خاوند اور بيوى ميں دخول سے قبل كوئى ايك مرتد ہو جائے تو عام اہل علم كے قول كے مطابق نكاح فسخ ہو جائيگا " انتہى مختصرا

ديكھيں: المغنى ( 7 / 133 ).

ب ـ اور اگر رخصتى و دخول كے بعد شك پيدا ہوا تو عدت پورى ہونے تك عليحدگى متوقف ہوگى، لہذا اگر توبہ كر كے دين اسلام ميں داخل ہو جائے تو نكاح باقى رہےگا، ليكن اگر دين اسلام ميں واپس آنے سے قبل عدت ختم ہو جائے تو پھر نكاح فسخ ہو جائيگا، حنابلہ اور شافعيہ كا مسلك يہى ہے.

اور باقى فقھاء كے ہاں مرتد ہوتے ہى نكاح فسخ ہو جائيگا.

اور تيسرا قول يہ ہے كہ: عدت ختم ہونے كے بعد عورت اپنے آپ كى مالك ہے، اسے كسى دوسرے سے نكاح كرنے كا حق حاصل ہے، اور اسے صبر كرتے ہوئے انتظار كا بھى حق ہے كہ ہو سكتا ہے وہ اسلام قبول كر لے، اور اس طرح وہ پہلے نكاح سے ہى اس كے پاس جا سكتى ہے، شيخ الاسلام ابن تيميہ اور ان كے شاگرد ابن قيم نے يہى قول اختيار كيا ہے، اور معاصر علماء كرام ميں سے شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ نے اسے راجح قرار ديا ہے.

مزيد تفصيل كے ليے آپ سوال نمبر ( 21690 ) كے جواب كا مطالعہ كريں.

اگر حيض والى عورت ہو تو اس كى عدت تين حيض ہے.

عقد نكاح كا طريقہ يہ ہے كہ: عورت كا ولى دو گواہوں كى موجودگى ميں كہے: ميں نے اپنى فلاں بيٹى يا بہن كا نكاح تيرے ساتھ كيا، اور آپ كہيں: ميں نے قبول كيا.

سوم:

كافر كے اسلام قبول كرنے كے بعد غسل كے وجوب ميں فقھاء كرام كا اختلاف ہے، اور احتياط اسى ميں ہے كہ غسل كرے.

ابن قدامہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" جب كافر مسلمان ہو جائے تو اس پر غسل كرنا واجب ہے، چاہے اصلى كافر ہو يا مرتد ہوا ہو، اسلام قبول كرنے سے قبل غسل كيا ہو يا غسل نہ كيا ہو، كفر كے عرصہ ميں كوئى ايسى چيز پائى گئى ہو جس سے غسل واجب ہوتا ہے يا نہ پائى گئى ہو، امام مالك اور ابو ثور اور ابن منذر كا يہى مسلك ہے.... ليكن ابو حنيفہ رحمہ اللہ اس پر كسى بھى حالت ميں غسل واجب نہيں كرتے..

ہمارى دليل قيس بن عاصم رضى اللہ تعالى عنہ كى حديث ہے، ميں نبى كريم صلى اللہ عليہ كے پاس آيا اور ميں اسلام قبول كرنا چاہتا تھا، چنانچہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے مجھے پانى اور بيرى كے ساتھ غسل كرنے كا حكم ديا "

اسے ابو داود اور نسائى نے روايت كيا ہے، نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا يہاں حكم دينا يعنى امر وجوب كا تقاضا كرتا ہے " انتہى

ديكھيں: المغنى ( 1 / 132 ).

شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" احوط يہى ہے كہ غسل كرے؛ كيونكہ اگر وہ غسل كر كے نماز ادا كرے تو سب اقوال كے مطابق اس كى نماز صحيح ہے، ليكن اگر وہ بغير غسل كيے نماز ادا كرے تو اس كى نماز صحيح ہونے ميں اہل علم كا اختلاف ہے "

الشرح الممتع ( 2 / 342 ).

اس بنا پر احتياط اسى ميں ہے كہ آپ غسل كر كے كلمہ پڑھيں، اور نكاح كے مسئلہ ميں ہم نے جو تفصيل بيان كى ہے آپ اس پر عمل كريں.

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب