سوموار 24 جمادی اولی 1446 - 25 نومبر 2024
اردو

كثرت نسل اور اولاد كى ترغيب

13492

تاریخ اشاعت : 16-01-2010

مشاہدات : 13776

سوال

ملاحظہ كيا گيا ہے كہ لوگ دو قسموں ميں بٹے ہوئے ہيں ايك قسم تو كم اولاد پيدا كرنے كے قائل ہيں اور دوسرى قسم كے لوگ كثرت اولاد كے قائل ہيں، كيا ان دونوں رائے كى كوئى دليل ملتى ہے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

ابو داود نے معقل بن يسار رضى اللہ تعالى عنہ سے روايت كيا ہے وہ بيان كرتے ہيں ايك شخص نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے پاس آيا اور عرض كرنے لگا:

" مجھے ايك حسب و نسب والى خوبصورت عورت كا رشتہ ملا ہے ليكن وہ بانجھ ہے پچے پيدا نہيں كر سكتى كيا ميں اس عورت سے شادى كر لوں ؟

نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اسے فرمايا: نہيں.

پھر وہ شخص دوبارہ آيا اور پھر تيسرى بار آيا تو نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" تم ايسى عورت سے شادى كرو جو زيادہ محبت كرنے والى ہو اور زيادہ بچے جننے والى ہو، كيونكہ ميں تمہارے زيادہ ہونے كى وجہ سے دوسرى امتوں پر فخر كروں گا "

سنن ابو داود حديث نمبر ( 2050 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے ارواء الغليل حديث نمبر ( 1784 ) ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.

يہ حديث ايسى عورت سے نكاح كرنے كى ترغيب دلاتى ہے جو اولاد كثرت سے پيدا كرنے والى ہو تا كہ امت ميں كثرت ہو سكے، اور اس سے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كو باقى دوسرى امتوں پر كثرت امت كى بنا پر فخر ہو، اور اس ميں كثرت اولاد كى ترغيب پائى جاتى ہے.

امام غزالى رحمہ اللہ ذكر كرتے ہيں كہ: جب كوئى شخص شادى كرے اور شادى سے اس كى نيت اولاد كا حصول ہو تو يہ قرب كا باعث ہے اور اسے اس حسن نيت پر اجروثواب حاصل ہو گا، انہوں نے اس كو كئى ايك وجوہات كے ساتھ بيان كيا ہے جو ذيل ميں بيان كى جاتى ہيں:

اول:

انسان كى جنس باقى ركھنے كے ليے اولاد كا حصول اللہ تعالى كو محبوب ہے اور ايسا كرنا اس محبت سے موافقت ہے.

دوم:

رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا باقى انبياء سے كثرت امت ميں روز قيامت فخر كرنے كى محبت كى طلب پائى جاتى ہے.

سوم:

اس ميں بركت كا طلب كرنا، اور كثرت اجر ہے، اور نيك و صالح اولاد كى دعاء سے گناہوں كى بخشش پائى جاتى ہے.

يہ معلوم ہے كہ اولاد كا حصول ايسى خواہش و تمنا ہے جو دور قديم سے لوگوں ميں پائى جاتى ہے حتى كہ رسولوں اور انبياء اور سب نيك و صالحين كى بھى يہى تمنا و خواہش رہى ہے، اور جب تك انسان كى فطرت سليمہ باقى ہے وہ اسى طرح رہينگے، چنانچہ اولاد ايك نعمت ہے جو انسانوں كے دلوں ميں معلق ہے اور وہ اس كى تمنا و اميد ركھتے ہيں.

ابراہيم عليہ السلام نے اپنے پروردگار سے دعا كرتے ہوئے فرمايا:

اے ميرے پروردگار مجھے نيك و صالح اولاد عطا فرما الصافآت ( 100 ).

اور زكريا عليہ السلام نے فرمايا:

جب اس ( زكريا عليہ السلام ) نے اپنے پروردگار سے چپكے چپكے دعا كى تھى، كہ اے ميرے پروردگار ميرى ہڈياں كمزور ہو گئى ہيں، اور سر بڑھاپے كى وجہ سے سفيد ہو گيا ہے، ليكن ميں كبھى بھى تجھ سے دعا كر كے محروم نہيں رہا، مجھے اپنے مرنے كے بعد اپنے قرابت والوں كا ڈر ہے، اور ميرى بيوى بانجھ ہے پس تو مجھے اپنے پاس سے وارث عطا فرما، جو ميرا بھى وارث ہو اور يعقوب ( عليہ السلام ) كے خاندان كا بھى جانشين ہو، اور ميرے پروردگار تو اسے مقبول بندہ بنا لے، اے زكريا! ہم تجھے ايك بچے كى خوشخبرى ديتے ہيں جس كا نام يحيى ہے، ہم نے اس سے پہلے اس كا ہم نام بھى كسى كو نہيں كيا مريم ( 3 - 7 ).

اور پھر اللہ عزوجل نے نيك و صالح بندوں كى بہت سارى صفات بيان كى اور ان كى تعريف كى ہيں:

فرمان بارى تعالى ہے:

اور وہ لوگ جو يہ كہتے ہيں: اے ہمارے پروردگار تو ہميں ہمارى بيويوں اور اولاد سے آنكھوں كى ٹھنڈك عطا فرما اور ہميں پرہيزگاروں كا پيشوا بنا الفرقان ( 74 ).

اور اللہ سبحانہ و تعالى نے بتايا ہے كہ شعيب عليہ السلام نے اپنى قوم كو حكم ديتے ہوئے اللہ كى نعمت ياد كرنے كہا ديكھو كہ تم بہت تھوڑے تھے تو اللہ نے تمہيں كثرت دى فرمان ہے:

اور ياد كرو جب تم قليل تھے تو اللہ نے تمہيں كثرت دى الاعراف ( 86 ).

چنانچہ انہوں نے قلت عدد كے بعد كثرت كو ايك عظيم نعمت شمار كيا جو اللہ تعالى اور اس كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم كى اطاعت و فرمانبردارى واجب كرتى ہے.

اور بلاشك و شبہ كثرت نسل ميں بہت فوائد ہيں اگر كوئى غور كرنے والا تامل كرے تو وہ ان كو محسوس كر سكتا ہے، اسى ليے ادراك ركھنے والے معاشرے نسل زيادہ كرنے كى حرص ركھتے اور كوشش كرتے ہيں، اور اپنے معاشرے كے افراد كو نسل زيادہ كرنے كى ترغيب دلاتے ہيں، بلكہ اس كے مقابلہ ميں اپنے دشمن كى نسل كو واہى قسم كے شبہات اور دلائل سے كم كرنے كى كوشش كرتے ہيں، بلكہ بعض اوقات تو ايسے وسائل استعمال كرتے ہيں جو انہيں بانجھ كر ركھ ديتا ہے، اور ان كى نسل كو كم كر ديتا ہے مثلا ايسى خوراك كا استعمال جس ميں نسل كم كرنے كا مواد شامل كرتے ہيں يا پھر منصوبہ بندى كے پروگرام پيش كر كے، اور يہ امت اسلاميہ كے خلاف اسلام دشمن طاقتوں كى طرف سے ايك جنگ ہے تو بغير اسلحہ كے لڑى جا رہى ہے.

اللہ تعالى سے دعا ہے كہ وہ كافروں كے مكر و فريب سے ہميں محفوظ ركھے، اور ان كى چالوں كو مسلمانوں سے دور كرتے ہوئے مسلمانوں كو سمجھنے كى توفيق نصيب فرمائے.

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب