الحمد للہ.
شيخ ابن باز رحمہ اللہ تعالى سےدرج ذيل سوال كيا گيا:
اپنے پاس پانى موجود ہونے كے باوجود تيمم كرنے والے كا حكم كيا ہے ؟
تو شيخ رحمہ اللہ كا جواب تھا:
" يہ عظيم منكر كام ہے، اس پر تنبيہ كرنا ضرورى ہے، وہ يہ كہ پانى كى موجودگى ميں وضوء نماز صحيح ہونے كى شروط ميں سے ايك شطر ہے.
جيسا كہ اللہ سبحانہ وتعالى كا فرمان ہے:
اے ايمان والو جب تم نماز ادا كرنے لگو تو اپنے چہرے اور كہنيوں تك دونوں ہاتھ دھو لو، اور اپنے سروں پر مسح كرو، اور دونوں پاؤں ٹخنوں تك دھوؤ اور اگر تم جنبى ہو تو پھر طہارت و پاكيزگى اختيار كرو، اور اگر بيمار ہو يا پھر سفر ميں ہو يا تم ميں سے كوئى ايك پيشاب اور پاخانہ كرے، يا پھر اپنى بيوى سے جماع كرے اور پانى نہ پائے تو پھر پاك مٹى كے ساتھ تيمم كرتے ہوئے مٹى كے ساتھ اپنے چہرے اور ہاتھ پر مسح كرے .
اور صحيحين ميں رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" تم ميں سے كسى ايك كى بھى بے وضوء نماز قبول نہيں ہوتى حتى كہ وہ وضوء كر لے "
اللہ سبحانہ وتعالى نے پانى نہ ملنے، يا پھر بيمارى كى بنا پر پانى استعمال كرنے سے عاجز ہونے كى صورت ميں تيمم كو وضوء كے قائم مقام بنايا اور مباح كيا ہے.
اس كى دليل مندرجہ بالا آيت اور درج ذيل فرمان بارى تعالى ہے:
اے ايمان والو جب تم نشہ ميں مست ہو تو نماز كے قريب بھى نہ جاؤ جب تك كہ تم اپنى بات كو سمجھنے نہ لگو، اور جنابت كى حالت ميں جب تك كہ غسل نہ كر لو، ہاں اگر راہ چلتے گزر جانے والے ہو تو اور بات ہے، اور اگر تم بيمار ہو يا سفر ميں ہو يا تم ميں سے كوئى قضائے حاجت كر كے آيا ہو يا تم نے عورتوں سے مباشرت كى ہو اور تمہيں پانى نہ ملے تو پاك مٹى سے تيمم كرو، اور اپنے چہرے اور ہاتھ مل لو، بے شك اللہ تعالى معاف كرنے والا اور بخشنے والا ہے النساء ( 43 )
عمران بن حصين رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ:
" ہم ايك سفر ميں رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے ساتھ تھے، رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے لوگوں كو نماز پڑھائى تو ديكھا كہ ايك شخص لوگوں سے الگ تھلگ ہے، رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اس سے كہا:
تم نے ہمارے ساتھ نماز كيوں نہيں ادا كى ؟
اس شخص نے جواب ديا: ميں جنبى ہوں اور پانى نہيں ہے، رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" تم مٹى استعمال كرلو تمہارے ليے يہى كافى ہے "
متفق عليہ.
اس سے يہ معلوم ہوا كہ پانى كى موجودگى اور اس كو استعمال كرنے كى استطاعت ہوتے ہوئے تيمم كرنا جائز نہيں، بلكہ مسلمان شخص جہاں بھى ہو اس كے ليے اپنى جنابت دور كرنے اور وضوء كرنے كے ليے پانى استعمال كرنا واجب ہے، جبكہ وہ پانى استعمال كرنے كى استطاعت ركھتا ہو، اور معذور نہ ہو، ليكن اگر اسے كوئى عذر ہے تو پھر تيمم كافى ہے.
تو اس طرح اس كى نماز صحيح نہيں، كيونكہ نماز صحيح ہونے كى شرائط ميں سے استطاعت ہوتے ہوئے پانى كے ساتھ طہارت كى شرط مفقود ہے.
بہت سے باديہ نشين ـ اللہ تعالى انہيں ہدايت دے ـ اور دوسرے افراد جو سير و سياحت كے ليے جاتے ہيں تيمم كرتے ہيں، حالانكہ ان كے پاس پانى بہت ہوتا ہے، اور پانى تك پہنچنا بھى آسان اور ميسر ہے، بلاشك و شبہ يہ بہت عظيم تساہل اور قبيح عمل ہے، شرعى دلائل كے مخالف ہونے كى باعث اس كا ارتكاب كرنا جائز نہيں ہے.
انسان تيمم اس وقت كر سكتا ہے جب وہ پانى سے دور ہو، يا پھر اس كے پاس اتنا ہى پانى باقى ہو جو صرف اس كے پينے اور اس كى اپنى اور اپنے اہل و عيال اور جانوروں كى زندگى بچانے كے ليے ہو، اور كہيں قريب پانى نہ ملے، اس ليے ہر مسلمان شخص كو اپنے سب معاملات ميں اللہ تعالى كا تقوى اختيار كرنا چاہيے، اور اللہ نے اس پر جو واجب اور فرض كيا ہے اس پر عمل كرے.
ان واجب كردہ امور ميں استطاعت ہوتے ہوئے پانى كے ساتھ وضوء كرنا بھى شامل ہے، اور اسى طرح اس پر حرام كردہ اشياء سے اجتناب بھى لازم ہے، اس ميں پانى كى موجودگى اور اس كے استعمال كى استطاعت ہوتے ہوئے تيمم كرنا بھى شامل ہے.
اللہ تعالى سے ميرى دعا ہے كہ وہ ہميں اور سب مسلمانوں كو دين اسلام كى سمجھ اور دين پر ثابت قدم رہنے كى توفيق نصيب فرمائے، اور ہم سب كو اپنے نفسوں كے شر اور ہمارے برے اعمال سے محفوظ ركھے، يقينا اللہ تعالى بڑا ہى سخى اور كرم والا ہے، اللہ تعالى ہمارے نبى محمد صلى اللہ عليہ وسلم اور ان كى آل اور صحابہ كرام پر اپنى رحمتيں نازل فرمائے.