الحمد للہ.
الحمدللہاللہ سبحانہ وتعالی نے لوگوں کے مال پرزيادتی وظلم کرنے اورناحق حاصل کرنے کوحرام قرار دیا ہے ، اوربغیرکسی حق کے تلف کردہ اشیاء کا ضامن ہونا مشروع کیا ہے چاہے وہ غلطی سے ہی تلف ہوجائے ، لھذا جس نے بھی کسی دوسرے کی چيزیامال ضائع کردیا اوروہ مال بھی محترم اورقیمتی ہو اورصاحب مال کی اجازت کے بغیر ضائع کیا جائے تواس حالت میں ضمان واجب ہوگی یعنی اس کی قیمت یا اسی طرح کی چيزادا کرنا ہوگی ۔
اورجب کوئي جانور کسی سوار یا اسے ہانکنے والے کے ہاتھ میں ہو جووہ اس کے اگلے حصہ کے نقصان کا ضامن ہوگا مثلا اس کے منہ اوراگلے پاؤں میں نہ کہ اس کے پچھلے حصہ کامثلا اس کا پچھلا پاؤں اس کی دلیل مندرجہ ذیل حدیث ہے :
ٹانگ کی کوئي جنایت نہيں وہ رائیگاں ہے ۔
اورابوھریرہ رضي اللہ تعالی عنہ کی روایت میں ہے :
( جانور کی ٹانگ میں کچھ نہیں وہ رائيگاں ہے ) ۔
عجماء چوپائے کوکہا جاتا ہے اوربات نہ کرنے کی بنا پراسے عجماء یعنی بے زبان کانام دیا گيا ہے ، اورجبار جیم پر پیش کا معنی ہے ک چوپائے کی کوئي جنایت نہیں بلکہ وہ رائيگاں ہے ۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں :
( ہربےزبان چوپایہ مثلا گائے اوربکری وغیرہ جب وہ خود کوئي نقصان کریں توان کی جنایات غیرمضمون ہوگی مثلا اگرکسی کے ہاتھ سے کوئي جانور بھاگ جائے اورکچھ نقصان کردے توکسی پر بھی کوئي ضمان نہیں ہوگی جب تک کہ وہ کاٹ کھانے والا نہ ہو اورنہ ہی اس کے مالک میں رات کے وقت یا مسلمانوں کے بازار اورلوگوں کے جمع ہونے والی جگہوں سےاس کی حفاظت کرنے میں کوئي کوتاہی سے کام لیا ہو ۔
کئي ایک کا یہی کہنا ہے کہ : جب جانور بھاگا ہوا ہو یا پھر وہ اپنے آپ ہی جارہا ہو اوراس کوکوئي بھی ہانکنے والا نہ تواس صورت میں وہ رائیگاں ہوگا ، لیکن نقصان دینے والا رائیگاں نہیں ) ۔
اورجب کوئي آدمی یا جانور حملہ آور ہو اوراس کا دفاع اسے قتل کرنے کے سوانہ ہوسکتا ہو تواسے قتل کردینے پربھی کوئي ضمان نہيں ہوگی ، اس لیے کہ اس نے اپنے دفاع میں قتل کیا ہے اوراپنا دفاع کرنا جائز ہے ، اس لیے دفاع کرتے ہوئے جوکچھ بھی ہواس کی ضمان نہيں دی جائے گي اوراس لیے بھی کہ اس کے شر سے بچنے کے لیے اسے قتل کیا ہے اوراس صورت میں حملہ آور ہی اپنے آپ کو قتل کرنے والا ہے ۔
اورشیخ تقی الدین کہتے ہیں :
( اس پرضروری ہے کہ وہ حملہ آور کواپنے آپ سے دور کرے ، اوراگروہ حملہ آور کوقتل کیے بغیر اپنا دفاع نہ کرسکتا ہو توباتفاق علماء کرام اس کے لیے حملہ آور کوقتل کرنا بھی جائز ہوگا ) ۔
اور جن اشیاء کے تلف اورضائع کرنے کی بناپر ضمان نہیں ان میں آلات لھوولعب اورموسیقی کے آلات ، صلیب ، اورشراب نوشی کرنے والے برتن ، گمراہ کرنے والی اورخرافات اور بے حیائي سے بھری ہوئي کتب ، اس کی دلیل امام احمد کی ابن عمررضي اللہ تعالی عنہ سے روایت کردہ مندرجہ ذیل روایت ہے :
( نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ابن عمررضي اللہ تعالی عنہ کو حکم دیا کہ وہ وہ چھری لیں اورپھر وہ مدینہ کے بازاروں میں گئے جہاں پرشام سے شراب کے مشکيزے لائے گئے تھے توابن عمررضي اللہ تعالی عنہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگي میں انہیں کاٹ ڈالا اوراپنے صحابہ کوبھی اس کا حکم دیا )۔
توحدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ انہیں ضائع توکیا جائے گا لیکن اس کی ضمان نہیں ہوگی ، لیکن یہاں یہ بات یادی رکھی جائے کہ اسے ضائع کرنے کا حکم صاحب قوت وسلطہ وطاقت کی طرف سے ہوگا ، اورمصلحت پر عمل کرتے ہوئے اس کی ضمان بھی ہوگی تا کہ فتنہ وفساد سے بچا جاسکے ۔ .