الحمد للہ.
بعض بہنوں نےجويہ نصيحت كي ہےكہ يہ كام جائزنہيں ان كي يہ نصيحت صحيح ہے كيونكہ اس عمل ميں دو طرح سےكفار كي مشابہت پائي جاتي ہے.
اول:
اس تہوار كو منانا ، اور يہ شرعي طور پر حرام كام ہے، اور اس ميں اس تہوار كےموقع پر تحفہ پيش كرنا بھي ہے.
دوم:
ان كےاس بدعتي تہوار كےدن كفار كي ان عادات كو اپنا كران كي تقليد كرنا.
اسلام ميں عيدالفطر اور عيدالاضحي كےعلاوہ كوئي تيسري عيد نہيں ، ان دونوں عيدوں اور تہواروں كےعلاوہ جو عيد اور تہوار نئےنكال ليےگئے ہيں وہ كچھ بھي نہيں اور خاص كر جب يہ دوسرے اديان كي عيديں اور تہوار ہوں يا ان فرقوں كےتہوار ہوں جو دائرہ اسلام سےخارج ہيں .
اہميت كےليے سوال نمبر ( 947 ) كےجواب كا مطالعہ ضرور كريں.
اور اس كام ميں بدعت كا دروازہ كھولنا ہے اور يہ نبي كريم صلي اللہ عليہ وسلم كےمندرجہ ذيل فرمان كےعموم كےتحت آتا ہے:
( جس نےبھي ہمارے اس دين ميں كوئي نيا كام نكالا جو اس ميں سے نہيں تو وہ مردود ہے ) صحيح بخاري كتاب الصلح حديث نمبر ( 2499 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 1718 ) .
واللہ اعلم .