سوموار 22 جمادی ثانیہ 1446 - 23 دسمبر 2024
اردو

ولى نہيں اور منگيتر بھى دوسرے شہر ميں ہے نكاح كيسے ہو گا

136491

تاریخ اشاعت : 04-03-2010

مشاہدات : 6503

سوال

ميرے ليے كسى ايسى لڑكى سے شادى كيسے ہو سكتى ہے جس كا ولى نہيں ہے اور اس كے ليے مسجد ميں بھى حاضر ہونا ممكن نہيں، كيونكہ ہم ايك دوسرے سے بہت دور رہتے ہيں ؟
كيا يہ ممكن ہے كہ ميں اپنے ساتھ پيپر لے جاؤں جس ميں اس نے لكھا ہو كہ وہ مجھ سے شادى كرنا چاہتى ہے، اور امام مسجد اس كا ولى بن جائے، يہ علم ميں رہے كہ امام مسجد نے اسے نہيں ديكھا، اور ميرے خيال ميں وہ اسے ديكھ بھى نہيں سكتا ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اگر لڑكى كا كوئى ولى نہيں تو اس كا نكاح شرعى قاضى كريگا، اور اگر شرعى قاضى بھى نہ ہو تو پھر اس لڑكى كا نكاح مسلمانوں ميں مقام و مرتبہ ركھنے والا شخص مثلا مسجد كا امام يا اسلام سينٹر يا كوئى مشہور عالم دين نكاح كريگا، اور اگر يہ بھى نہ ہو تو اس كا نكاح مسلمانوں ميں كوئى شخص بھى نكاح كر سكتا ہے.

مزيد آپ سوال نمبر ( 48992 ) كا مطالعہ كريں.

نكاح صحيح ہونے كے ليے دو مسلمان گواہ ہونا ضرورى ہيں جو ولى كى جانب سے ايجاب و قبول ہونے كى گواہى ديں اور كہ ولى جانب سے خاوند نے يہ نكاح قبول كيا ہے؛ كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" ولى اور دو عادل گواہوں كے بغير نكاح نہيں ہوتا "

اسے امام بيہقى نے عمران اور عائشہ رضى اللہ تعالى عنہما سے روايت كيا اور علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح الجامع حديث نمبر ( 7557 ) ميں صحيح قرار ديا ہے.

اگر آپ ايك علاقے اور ملك ميں ہوں اور لڑكى دوسرے علاقے ميں جيسا كہ آپ نے بيان كيا ہے اور اس لڑكى كا ولى بھى نہ ہو تو پھر اس لڑكى كے ساتھ عقد نكاح كا طريقہ يہ ہے كہ اس لڑكى كے علاقے اور شہر والوں ميں سے اس كا كوئى ولى بنےگا چاہے وہ امام مسجد ہو يا اسلامك سينٹر جيسا كہ اوپر بيان ہو چكا ہے.

وہ اس لڑكى سے آپ كے ساتھ نكاح كى رغبت معلوم كريگا اور پھر كسى ايسے شخص كو اپنا نائب بنائيگا جو آپ كے علاقے ميں ہو اور آپ كے ساتھ عقد نكاح كرے، يا پھر آپ اور اس كے درميان ٹيلى فون يا انٹرنيٹ پر جديد آلات كے ذريعہ عقد نكاح ہو اور اس ميں آپ كے پاس يا اس شخص كے پاس دو گواہ موجود ہوں جو آپ كےايجاب و قبول كو سن رہے ہوں.

ٹيلى فون كے ذريعہ نكاح كے متعلق راجح يہى ہے كہ اگر كھلواڑ سے امن ميں ہو تو جائز ہے.

درج ذيل سوال شيخ ابن باز رحمہ اللہ كے سامنے پيش كيا گيا:

ميں ايك ايسى لڑكى كے ساتھ نكاح كرنا چاہتا ہوں جس كا والد كسى دوسرے علاقے ميں ہے، اور ميں مالى حالات يا كسى اور وجہ سے اس علاقے ميں نہيں جا سكتا كہ سب اكٹھے ہو كر عقد نكاح كريں اور ايجاب و قبول ہو، تو كيا ميرے ليے جائز ہے كہ ميں اس كے والد سے ٹيلى فون پر ايجاب و قبول كر لوں وہ كہے كہ ميں نے تيرے ساتھ اپنى فلاں بيٹى كا نكاح كيا اور ميں اس كے جواب ميں كہوں مجھے قبول ہے، اور لڑكى بھى اس پر راضى ہوں، اور اوپن سپيكر كے ذريعہ وہاں دو گواہ بھى اس ايجاب و قبول كو سن رہے ہوں تو كيا يہ نكاح شرعى ہوگا ؟

شيخ رحمہ اللہ كا جواب تھا:

" جو كچھ بيان كيا گيا ہے اگر تو وہ صحيح ہے ( اور اس ميں كوئى كھيل نہيں ) تو اس سے شرعى عقد نكاح كى شروط كا مقصد پورا ہو جاتا ہے اور عقد نكاح صحيح ہو گا "

مزيد آپ سوال نمبر ( 2201 ) اور ( 48992 ) كے جوابات كا مطالعہ ضرور كريں.

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب