الحمد للہ.
مسلمان کےسامنے جب کوئي بھی حکم شرعی آجائے تواس پر واجب اورضروری ہے کہ اسے تسلیم کرے اوراس پرایمان لائے اگرچہ وہ اس کی حکمت کوجانتا ہویا اسے اس کا علم نہ بھی ہو کیونکہ اللہ سبحانہ وتعالی نے بھی ایسا ہی حکم دیا ہے ۔
اللہ تعالی نے اس کا ذکر کرتے ہوئے کچھ اس طرح فرمایا :
اور ( دیکھو ) کسی بھی مومن مرد اورعورت کو اللہ تعالی اوراس کے رسول ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کے فیصلے کے بعد اپنے کسی امر کا کوئي اختیار باقی نہیں رہتا ، ( یاد رکھو ) اللہ تعالی اوراس کے رسول ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی جوبھی نافرمانی کرے گا وہ صریح گمراہی میں پڑے گا الاحزاب ( 36 ) ۔
اورمسلمان یہ یقین اورایمان رکھتا ہے کہ سارے کے سارے شرعی احکام حکمت بالغہ سے پر ہیں ، لیکن ہوسکتا ہے کہ اس پر اس کی حکمت مخفی رہی ہو اوراسے وہ نہیں سمجھ سکا ، تواس وقت وہ یہ دیکھتا ہے کہ یہ قصور تواس کے علم اورانسانی عقل کا ہے جوکہ قصور اور کمی وکوتاہی سے خالی نہيں ۔
اورجب مرد وعورت ازدواجی زندگي کے قالب میں جمع ہوتے اوراکٹھے زندگی گزارتے ہیں توان کی رائے میں اختلاف پایا جانا کوئي دور کی بات نہیں اوریہ نہیں کہا جاسکتا کہ وہ اختلاف رائے سے خالی ہوگی ، لھذا اس کے لیے ضروری ہے کہ کوئی ایسا فریق ہونا چاہیے جواس معاملہ میں کمی کرے وگرنہ اختلافات زیادہ ہوجائيں گے اور آپس میں نزاع بڑھ جائے گا تواس لیے اس کشتی کا کوئي قائد اورکمان کرنے والا بھی ہونا چاہیے وگرنہ جب ملاحوں میں اختلاف پیدا ہوگیا تویہ کشتی ڈوب جائے گی ۔
اس لیے شریعت اسلامیہ نے گھرمیں بیوی پر خاوند کوحکمران بنایا اوراسے ذمہ داری اورمسؤلیت دی کیونکہ وہ غالبا عقل میں کامل ہوتا ہے تواس کا معنی یہ ہوا کہ عورت پر خاوند کی اطاعت کرنی واجب ہوئی ۔
اللہ سبحانہ وتعالی کا فرمان ہے :
مرد عورتون پر حاکم ہیں اس وجہ سے کہ اللہ تعالی نےایک کو دوسرے پر فضیلت دی ہے اوراس وجہ سے کہ مردوں نے اپنے مال خرچ کیے ہیں النساء ( 34 ) ۔
اس اطاعت کے اسباب کئي ایک ہیں جن میں کچھ یہ ہيں :
اول :
اس لیے کہ مردوں میں اس مسؤلیت کونبھانے میں زيادہ قدرت پائي جاتی ہے ، جس طرح کہ مرد کے مقابلہ میں عورت بچوں کی پرورش اورگھر کے معاملات سنبھالنے میں زيادہ قدرت رکھتی ہے ، تواس طرح ہر ایک کے لیے موقع اورجگہ طبعی طور پر مقرر ہے ۔
دوم :
دین اسلام میں مرد عورت کے سارے اخراجات کا مکلف ہے کہ وہ اپنی بیوی پر تمام خرچہ کرے ، تواس طرح بیوی پر واجب اورضروری نہیں کہ وہ ملازمت کرتی پھرے اورنہ ہی اس پر رزق کمانا واجب ہے ، بلکہ اگربیوی کی مستقل آمدنی بھی ہو یا پھر وہ غنی اورمالدار بھی ہوجائے توپھر بھی خاوند پر ہی اس کے اخراجات کرنے واجب ہیں ، اوراس کی سب ضروریات بھی خاوند ہی پوری کرے گا ، تو اس لیے کہ خاوند خرچہ کی ذمہ داری نبھاتا ہے اسی لیے اسے ولایت اورحکمرانی دی گئي ہے ۔
اسی لیے ہم ان معاشروں میں خرابی دیکھتے ہيں جواس قانون کی مخالفت کرتے ہیں ، اورمرد اپنی بیوی کے اخراجات برداشت نہیں کرتا ، اور نہ ہی بیوی اپنے خاوند کی اطاعت کرتی ہے ، جب چاہے اپنے گھر سے نکل کر زوجیت کا گھونسلہ خالی کرکے چلی جاتی ہے ، اوراس کی اولاد ضائع ہوتی پھرتی ہے ، اورپھروہ محنت و مشقت کرتی پھرتی ہے چاہے وہ اپنے گھر کے لیے ہی ہو ۔
اس معاملہ میں چندایک اشیاء کا خیال رکھنا ضروری ہے :
اول :
عورت اپنے خاوند کی اطاعت کرنے پر اللہ تعالی کے ہاں ماجور ہے اسے اجرو ثواب حاصل ہوتا ہے ۔
دوم :
خاوند کی یہ اطاعت اللہ تعالی کی معصیت کے علاوہ باقی امور میں ہوگي ، کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے :
( کسی بھی مخلوق کی اطاعت خالق کی نافرمانی میں نہیں کی جاسکتی )
سوم :
جس طرح خاوند کا بیوی پر حق اطاعت ہے تواللہ تعالی نے خاوند کوبھی یہ حکم دیا ہے کہ وہ اپنی بیوی کے ساتھ حسن معاشرت اور اچھا برتاؤ کرے ۔
فرمان باری تعالی ہے :
اور عورتوں کے بھی ویسے ہی حق ہیں جیسے ان مردوں کے ہیں اچھائي کےساتھ البقرۃ ( 228 ) ۔
توخاوند اپنی بیوی پر خدمت لینے میں جور وظلم سے کام نہيں لے گا اوراس پر ظلم بھی نہ کرے ، اورنہ ہی اس پرسخت اوربد اخلاقی کے احکام چلائے گا ، بلکہ وہ اس کے معاملات میں حکمت ودانش مندی سے کام لے ، اوراسے ایسا کام کرنے کا کہے جس میں اس کی اورگھرکی بھلائی اورصلاح ہو اوراس کے ساتھ نرمی و شفقت کے ساتھ معاملات کرے ۔
اس لیے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے :
( تم میں سب سے بہتر وہ ہے جواپنے گھروالوں کے لیے اچھا ہے اورمیں تم میں سے اپنے گھر والوں کے لیے سب سے بہتر اوراچھا ہوں ) ۔
واللہ اعلم .