ہفتہ 22 جمادی اولی 1446 - 23 نومبر 2024
اردو

پھینکے ہوئے نومولود لاوارث بچے کے احکام

13718

تاریخ اشاعت : 17-12-2003

مشاہدات : 8588

سوال

اگر کسی کولاوارث بچہ ملے توکیا کرنا چاہیے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.


گمشدہ لاوارث بچے کے احکام کا لقطہ یعنی گمشدہ اشیاء کے احکام سے بہت بڑا تعلق ہے ، اس لیے کہ لقطہ گمشدہ اموال کے ساتھ خاص ہے اورلقیط گمشدہ انسان کوکہا جاتا ہے ، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اسلامی احکام زندگی کی ضروریات اوراس کے ہرمفید شعبے کو شامل ہیں ۔

دنیا تویتیموں اورلاوارث بچوں اوربوڑھے لوگوں کی دیکھ بھال اور پررورش اورپناہ گزین کیمپوں سے آج متعارف ہورہی ہے ، لیکن اسلام نے تو آج سے چودہ سوبرس قبل ہی اس سے بھی زيادہ اس کی طرف توجہ دلائي اوراس کے احکام بتائے جن میں لقیط یعنی لاوارث پھینکے ہوئے یا پھر اپنے والدین سے گمشدہ بچے کی دیکھ بھال شامل ہے ان دونوں حالتوں میں بچے کے نسب کا کوئي علم نہیں ہوتا ۔

لھذا ہراس شخص پرجو بھی کسی لاوارث بچے کو پائے واجب ہے کہ وہ اسے حاصل کرے اوراس کی دیکھ بھال اورپرورش کرے یہ دیکھ بھال فرض کفایہ ہے کچھ لوگوں کے کرنے سے باقی سے گناہ ساقط ہوجاتا ہے ، لیکن اگر سب ہی اسے ترک کردیں اور کوئي بھی اس بچے کو امکان ہونے کے باوجود نہ حاصل کرے توسب گنہگار ہونگے ۔

اس لیے کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے :

اورنیکی وبھلائي کے کاموں میں ایک دوسرے کا تعاون کرو

تواس آیت کا عموم لقیط یعنی گمشدہ بچے کو لینے پر دلالت کررہا ہے ، اس لیے کہ یہ بھی خیروبھلائي پر تعاون ہے ، اورپھر اس بچے کو لینے میں ایک جان کو زندہ کرنا اورجان بچانا ہے اس لیے ایسا کرنا واجب ہے جس طرح ضرورت کے وقت اسے کھانا کھلانا اورغرق ہونے سے بچانا واجب ہے اسی طرح اسے اٹھانا اورحاصل کرنا بھی واجب ہے ۔

لقیط یعنی گمشدہ لاوارث بچہ سب احکام میں آزاد ہے اس لیے کہ اصل چيز توآزادی ہے اورغلامی تو ایک عارضي چيز ہے اس لیے اگر علم نہ ہو سکے توغلام نہيں بلکہ وہ آزاد ہوگا ۔

اورجومال اوررقم وغیرہ اس کے ساتھ ہو یا اس کے ارد گرد سے ملے ظاہر پر عمل کرتے ہوئے وہ اس کی ملکیت ہوگی ، اوراس لیے کہ اس کا ہاتھ اس پر ہے ایسے بچے کواٹھانے والا احسن اوربہتر طریقے سے اس پر خرچ کرے کیونکہ اسے اس پرولایت حاصل ہے ۔

لیکن اگر اس بچے کے ساتھ اسے کچھ بھی نہ ملے تواس پربیت المال سے خرچ کیا جائے گا اس لیے کہ عمررضي اللہ تعالی عنہ نے لاوارث بچہ اٹھانے والے کو کہا تھا :

( جاؤ وہ بچہ آزاد ہے اوراس کی ولاء تجھے حاصل ہے ، اوراس کا نفقہ اورخرچہ ہم پر ہوگا ) یعنی اس کا خرچہ بیت المال سے ہوگا ۔

اورایک روایت میں ہے کہ عمررضي اللہ تعالی عنہ نے فرمایا تھا :

( اس کی رضاعت ہمارے ذمہ ہے ) یعنی رضاعت کا خرچہ بیت المال برداشت کرے گا ، لھذا اٹھانے والے پر نہ توخرچہ واجب ہے اورنہ ہی اس کی رضاعت ، بلکہ یہ بیت المال پرواجب ہوگي ، لیکن اگر بیت المال نہ ہو تومسلمانوں میں سے جسے علم ہواس پراس کا خرچہ واجب ہوگا ۔

اس لیے کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے :

اورخیروبھلائي کے کاموں میں ایک دوسرے کا تعاون کیا کرو ۔

اوراس لیے بھی کہ اگر اس پر خرچہ نہ کیا جائے تووہ ہلاک ہوجائے گا اوراس لیے بھی کہ اس پرخرچ کرنا خیرخواہی ہے جس طرح مہمان کی میزبانی کی جاتی ہے ۔

اوردینی لحاظ سے اس کاحکم یہ ہے کہ : اگروہ دارالاسلام یا پھر ایسے کافر ملک میں جہاں پراکثریت مسلمانوں کی ہو تووہ بچہ مسلمان ہوگا اس لیے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے :

( ہرپیدا ہونے والابچہ فطرت ( اسلام ) پر پیدا ہوتاہے ) ۔

اوراگر وہ بچہ خالصتا کفار ملک میں پایا جائے یا پھر اس ملک میں مسلمانوں کی تعداد قلیل ہو توملک کے ماتحت وہ بچہ بھی کافر شمار ہوگا ، اسے اٹھانے والا شخص اگر امانت دار ہوتو اس پراس کی پرورش کی ذمہ داری ہوگی ، کیونکہ عمررضي اللہ تعالی عنہ نے ابوجمیلہ کے صالح ہونے کے علم ہونے پرلاوارث بچے کوان کے پاس ہی رکھنے کا فیصلہ کیا اور فرمایا تھا :

( اس کی ولایت تجھے ہی ملے گی ) اس لیے کہ اس نے اسے اٹھانے میں سبقت لی ہے اس لیے وہ ہی اس کا زيادہ حقدار ہے ۔

اورلاوارث بچے کواٹھانے والا ہی اس بچے پراس کے ساتھ پائے جانے والی رقم میں سے خرچ کرے گا اس لیے کہ وہ ہی اس کا ولی ہے اورخرچ کرنے میں معروف اوراحسن انداز اختیار کرنا ہوگا ۔

اوراگرلاوارث بچے کواٹھانے والا پرورش کرنے کا اہل نہ ہومثلا وہ کافر یا فاسق ہواوربچہ مسلمان ہونے کی صورت میں بچہ اس کے پاس نہيں رہنے دیا جائے گا ، اس لیے کہ کافر اورفاسق کی مسلمان پر ولایت قائم نہیں ہوسکتی ، کیونکہ وہ بچے کودین اسلام سے پھیر دے گا اوراسی طرح اگربچے کواٹھانے والا ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہونے والا خانہ بدوش ہو تواس کے پاس بھی بچہ نہيں رہنے دیا جائے گا اس لیے کہ اس میں بچے کے لیے تکلیف اورتنگی ہے ۔

لھذا بچہ اس سے حاصل کرکے شہر میں رکھا جائے گا کیونکہ بچے کا شہر میں رہنا اس کے دین ودنیا دنوں کے لیے بہتر اوراچھا ہے ، اوربچے کے خاندان اور نسب کوتلاش کرنے میں زيادہ آسان ہے ۔

لاوارث بچے کی اگر کوئي اولاد نہ ہو تو اس کی وراثت اوراسی طرح اگر اس پرکوئي شخص جرم کرے تواس کی دیت دونوں چيزیں بیت المال کی ہونگی ، اوراگر اس کی بیوی ہو تواسے ربع یعنی چوتھا حصہ ملے گا ۔

اورلاوارث بچے کا قتل عمد میں مسلمانوں کاامام اس کی ولی بنے گا اس لیے کہ مسلمان اس کے وارث بنتے ہیں اورامام یعنی خلیفہ اورامیرالمسلمین ان کا نائب ہے لھذا اسے قصاص اوردیت لینے کا اختیار دیا جائےگا اوردیت بیت المال کی ہوگي ، کیونکہ جس کا کوئي ولی نہ ہو اس کا حکمران اورخلیفہ ولی ہوتا ہے ۔

اوراگراس پر کوئي شخص قتل کے علاوہ کسی قسم کی زيادتی کرے تواس کے بالغ ہونے کا انتظار کیا جائے گا تا کہ وہ اس کا قصاص لے سکے یا اس زيادتی کومعاف کردے ۔

اوراگر کوئي مرد یا عورت یہ اقرار کرے کہ لاوارث بچہ اس کا ہے توبچہ اس کی طرف ہی منسوب ہوگا ، اس لیے کہ بچے کی مصلحت اسی میں ہے کہ اس کا نسب مل جائے ، اوراس کا کسی دوسرے کوکوئي نقصان اورضرر نہيں ،لیکن شرط یہ ہے کہ اس کے نسب کا دعوی کرنے والا منفرد شخص ہو ، اوریہ بھی ممکن ہو کہ بچہ اس سے ہو ۔

لیکن اگر اس کے نسب کا دعوی کرنے والے ایک سے زيادہ ہوں توصاحب دلیل کو مقدم کیا جائے گا ، اوراگران میں سے کسی ایک کے پاس بھی دلیل نہ ہو یا پھر دلائل آپس میں تعارض رکھتے ہوں توبچے کوان کے ساتھ قیافہ لگانے والے پرپیش کیا جائے گا اورقیافے والا بچے کوجس کے ساتھ ملحق کرے گا بچہ اس شخص کی طرف ہی منسوب کیا جائے گا ۔

اس لیے کہ عمررضي اللہ تعالی عنہ نے بھی صحابہ کرام کی موجودگی میں یہی فیصلہ کیا تھا ، اوراس لیے بھی کہ قیافہ والے قوم میں سب سے زيادہ نسب کو جانتے ہیں ، اوراس میں صرف ایک قیافہ شناس ہی کافی ہوگا ، اوراس میں شرط یہ ہے کہ وہ قیافہ لگانے والا مرد ہواورعادل اور اور اس کے قیافہ کے صحیح ہونے کا تجربہ بھی ہو ۔

واللہ اعلم .

ماخذ: فتاوی الملخص الفقھی للشيخ صالح آل فوزان سے ماخوذ کیا گيا ہے دیکھیں صفحہ نمبر ( 155 ) ۔