سوموار 22 جمادی ثانیہ 1446 - 23 دسمبر 2024
اردو

سونے اور چاندى كے برتنوں كى حرمت

13733

تاریخ اشاعت : 07-01-2007

مشاہدات : 13352

سوال

ان ايام ميں سونے اور چاندى كے برتنوں كا استعمال عام ہو رہا ہے، خاص كر امير طبقہ ميں، بلكہ معاملہ اس حد تك جا پہنچا ہے كہ بعض لوگ تو غسل خانے ميں لگانے كے ليے ٹونٹياں وغيرہ بھى خالص سونے كى خريدنے لگے ہيں نہ تو وہ اس كى قيمت كى طرف دھيان ديتے ہيں، اور نہ ہى اس كى زكاۃ ادا كرتے ہيں، يہ تو معلوم ہے كہ يہ منع ہے، اس سلسلے ميں آپ كى رائے كيا ہے ؟
اور كيا اس كے حكم سے جاہل مسلمانوں كو يہ اشياء فروخت كرنے سے روك دينا چاہيے، بارك اللہ فيكم ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

نصوص شرعيہ اور اجماع سے سونے اور چاندى كے برتنوں كے استعمال كى حرمت ثابت ہے، ابو حذيفہ رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" تم سونے اور چاندى كے برتنوں ميں نہ پيؤ، اور اس كى پليٹوں ميں نہ كھايا كرو، كيونكہ ان كے ليے يہ دنيا ميں ہيں، اور تمہارے ليے آخرت ميں "

متفق عليہ.

اور ايك دوسرى حديث ميں ام سلمہ رضى اللہ تعالى عنہا بيان كرتى ہيں كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" جو شخص سونے اور چاندى كے برتنوں ميں كھاتا پيتا ہے وہ اپنے پيٹ ميں جہنم كى آگ ڈال رہا ہے "

متفق عليہ، يہ الفاظ مسلم شريف كے ہيں.

چنانچہ سونے اور چاندى كے برتن بنانا جائز نہيں، اور نہ ہى ان برتنوں ميں كھانا پينا جائز ہے، اور اسى طرح ان ميں وضوء كرنا بھى جائز نہيں، رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے ثابت شدہ فرمان كى نص سے يہ سب حرام ہے، چنانچہ اسے فروخت نہيں كرنا چاہيے تا كہ مسلمان شخص اسے استعمال نہ كر سكے.

اللہ سبحانہ وتعالى نے ان برتنوں كا استعمال حرام كيا ہے، چنانچہ نہ تو يہ كھانے پينے ميں استعمال ہو سكتے ہيں، اور نہ ہى كسى اور غرض كے ليے، اور نہ ہى سونے اور چاندى كے چمچ اور چائے يا قہوہ كے كپ بنائے جا سكتے ہيں يہ سب ممنوع ہيں كيونكہ يہ بھى برتنوں كى ايك قسم ہے.

اس ليے مسلمان شخص كو ہر اس چيز سے اجتناب كرنے كى كوشش كرنى چاہيے جو اللہ تعالى نے حرام كي ہے، اور اسے اسراف و فضول خرچى اور مال و دولت كے ساتھ كھيلنے سے دور رہنا چاہيے، اگر اللہ تعالى نے اسے مال و دولت كى فراوانى سے نوازا ہے تو اس كے پاس فقراء بہت ہيں، ان پر صدقہ و خيرات كرے، اور پھر اس كے پاس مجاہدين بھى ہيں جو اللہ تعالى كى راہ ميں اپنى جانيں نچھاور كر رہے ہيں، وہ ان پر اپنا مال خرچ كرے، اور مال كے ساتھ مت كھيلے.

مال اس كى ضرورت ہے، اور اس كے پاس ضرورتمند بھى بہت ہيں، اس ليے مومن شخص كو خير و بھلائى كے كاموں مثلا فقراء و مساكين اور مساجد و مدارس كى تعمير اور راستے بنانے اور پلوں كى اصلاح اور مجاہدين و مہاجرين اور فقراء و مساكين كى مدد ميں مال صرف كرنا چاہيے.

اس كے علاوہ بھى بہت سے بھلائى كے كاموں ميں صرف ہو سكتا ہے مثلا كسى مقروض شخص كا قرض ادا كرنا، يا پھر شادى كى استطاعت نہ ركھنے والے كى شادى ميں مال خرچ كرنا، يہ سب خيراتى كام ہيں، ان ميں خرچ كرنا مشروع ہے.

ليكن سونے اور چاندى كے برتنوں يا چمچ يا كپ يا پائپ وغيرہ بنوا كر لگانے ميں مال سے كھيلنا يہ سب عظيم منكر اور برائى ہے، اس سے اجتناب اور اسے ترك كرنا ضرورى ہے، جس علاقے اور شہر ميں ايسا كام ہو رہا ہو وہاں كے علماء اور حكام كو اس سے منع كرنا چاہيے، اور وہ اسراف كرنے والوں كے اس كھيل كو روكيں، اور انہيں ايسا نہ كرنے ديں.

اللہ تعالى ہى مدد گار ہے.

واللہ اعلم .

ماخذ: ديكھيں: مجموع فتاوى و مقالات متنوعۃ شيخ ابن باز ( 6 / 378 )