الحمد للہ.
بعض اوقات مسلمان دوسروں کی نظروں اوراپنے دین پر عمل کرنے کی بنا پر ایذا و تکلیف سے دوچار ہوتے ہيں ، لیکن انہیں جتنی بھی اذیت آۓ تکالیف آئيں ان کے لیے کسی بھی صورت میں یہ جائز نہیں کہ وہ اپنے اندر ہی ذلیل ہوں اوراسلام کوناپسند کرنا شروع کردیں ۔
بلکہ وہ تو اس میں صبر کرتے ہيں اوراللہ تعالی کے لیے اوراس کے راستے میں ہی اسے برداشت بھی کرتے ہوۓ اس کے اجروثواب کی نیت رکھتے ہیں ۔
ان کے مالک ورب و الہ کا فرمان ہے :
تم نہ توسستی کرو اورنہ ہی غمگین ہو تم ہی غالب رہوگے اگر تم ایمان دار ہو آل عمران ( 139 ) ۔
اوربعض کفار جوکچھ مسلمانوں کے ساتھ کرتے ہیں وہ تین اسباب میں سے ایک سبب کی بنا پر ہے :
یا تووہ کافر اسلام اوراس کی عظمت سے جاھل ہے اوراسے یہ علم نہيں کہ دین اسلام ہی دین حق ہے تواس جھالت کی بنا وہ مسلمانوں کو اذیت وتکلیف دیتا ہے ۔
یا پھر اسے یہ علم ہے کہ دین اسلام ہی دین حق ہے لیکن وہ دشمنی و عناد اورتکبر کی بنا پر مسلمانوں کو اذیت دیتا ہے ۔
اوریا پھر اسے اسلام اورمسلمانوں کی فضیلت کا علم ہے لیکن وہ یہ کام اسلام اورمسلمانوں سے حسد کی وجہ سے کرتا ہے ۔
اوراس کے باوجود مسلمان اس پر ایمان رکھتے ہیں کہ دین اسلام عزت و کرامت کا دین ہے اوردنیا وآخرت میں یہی دین رفعت وبلندی ہے جو بھی اس پرعمل پیرا ہوگا اللہ تعالی اسے عزت و بلندی عطا کرے گا اورجواس سے پیچھے ہٹے گا تو وہ صرف اپنے آپ کوہی نقصان پہنچاۓ گا ۔
ہمیں اسلام نے تعلیمات دیتے ہوۓ یہ تعلیم بھی دی ہے ہم مسلمان ہی قوی اور عزت والے ہوں گے ، اوراسی کے بارہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایا :
( قوت والا مومن اللہ تعالی کے ہاں ایک ضعیف اورکمزور مومن کے مقابلہ میں زیادہ محبوب اوربہتر ہے اورخیرو بھلائ تودونوں میں ہے ) صحیح مسلم حدیث نمبر ( 4816 ) ۔
ہمیں اسلام یہ حکم دیتا ہے کہ : ہم میں سے بڑے چھوٹوں پر رحم کریں اوران کے ساتھ رحمدلی سے پیش آئيں ۔
اس کا حکم دیتے ہوۓ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
( جو چھوٹوں پررحم اوربڑوں کی عزت نہ کرے وہ ہم میں سے نہیں ) سنن ترمذی حدیث نمبر ( 1842 ) اورعلامہ البانی رحمہ اللہ تعالی نے صحیح ترمذی ( 1565 ) میں اسے صحیح کہا ہے ۔
اورہمیں اسلام یہ بھی حکم دیتا ہے کہ ہم آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ بھی رحمدلی سے پیش آئيں اوراس کے مقابلہ میں ہم کفار پر سخت ہوں اوران کے ساتھ شدت سے پیش آئيں ۔
اللہ سبحانہ وتعالی کافرمان ہے :
محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالی کے رسول ہیں اورجولوگ ان کے ساتھ ہيں وہ کفار پر تو بہت ہی سخت ہیں اورآپس میں بہت ہی نرمی کرنے والے رحمدل ہيں الفتح ( 29 )
اورہمارا دین ہمیں یہ اجازت دیتا ہے کہ ہم یھودیوں اورعیسائيوں کی عورتوں سے شادی کرلیں لیکن یہ جائز نہیں کہ ہم یھودیوں اورعیسائیوں کو اپنی بیٹیاں دیں ۔
اس لیے کہ یھودی اورعیسائ ہم سے کم مرتبہ رکھتے ہیں اورہماری عورتیں ان سے اعلی درجہ رکھتی ہيں ، اوراس لیے نیچے والا اوپروالے سے بلند نہیں نہیں ہوسکتا ، اوراسلام علوبلندی والا ہے اس کے اوپر کوئ نہيں جاسکتا ، اورہم ان کے انبیاء پر ایمان رکھتے ہیں لیکن وہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان نہيں رکھتے ۔
ہمیں ہمارا دین یہ حکم دیتا ہے کہ ہم انہيں جزیرہ عربیہ نے نکال باہر کریں اوران میں سے کسی ایک کوبھی نہ رہنے دیں اس لیے کہ جزیرہ عربیہ رسالت کی سرزمین ہے اس لیے یہ جائز نہیں کہ ہم اسے کفار کی نجاستوں سے گندہ کریں ۔
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے :
( جزیرہ عربیہ سے مشرکوں کو نکال دو ) صحیح بخاری حدیث نمبر ( 2932 ) صحیح مسلم حدیث نمبر ( 3089 ) ۔
اورہمارا دین ہمیں یھود ونصاری کے برتنوں میں کھانے سے منع کرتا ہے لیکن اگر ان کے علاوہ کوئ اوربرتن نہ ملیں تو ہم اسے اچھی طرح دھونے کے بعد استعمال کرسکتے ہیں ۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے جب اہل کتاب کے برتنوں کے بارہ میں پوچھا گیا توآپ نےفرمایا :
( اگرتم ان کے برتنوں کےعلاوہ کوئ اوربرتن حاصل کرلوتوان کے برتنوں میں نہ کھاؤ اوراگر ان کے علاوہ کوئ اوربرتن نہ مل سکیں توانہيں دھو کر ان میں کھا لیا کرو ) صحیح بخاری حدیث نمبر ( 5056 ) صحیح مسلم حدیث نمبر ( 3567 ) اورمندرجہ بالاالفاظ مسلم کے ہیں ۔
ہمیں ہمارا دین حنیف اس سے منع کرتا ہے کہ ہم لباس میں کفارسے مشابہت اختیار کریں اور یا پھر کھانے پینے اور عادات میں ان کی تقلید اورنقل کریں ، اس لیے کہ ہمارا مرتبہ کفار سےاونچا ہے اورکفار ہم سے نیچے ہیں ، اوراصول یہ ہے کہ بلندی والا نچلے درجے والے کی مشابہت اختیار نہیں کرتا ۔
بلکہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے تواس بات کی وعید سنائ ہے کہ جوبھی کفار سے مشابھت اختیارکرے گا وہ ان کے ساتھ جہنم میں جاۓ گا اوریہ جگہ بہت ہی بری ہے ۔
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے :
( جوبھی کسی قوم سے مشابھت اختیار کرتا ہے وہ انہی میں سے ہے ) سنن ابوداود حدیث نمبر ( 3512 ) علامہ البانی رحمہ اللہ تعالی اس حدیث کے بارہ میں فرماتے ہیں کہ یہ حدیث حسن صحیح ہے دیکھیں صحیح ابوداود حديث نمبر ( 3401 ) ۔
ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں حکم دیا ہے کہ قدرت و استطاعت رکھتے ہوۓ کفار سے جنگ و لڑائ کریں اوران کے ممالک پر چڑھائ اورحملے کريں اوران پرحملہ کرنے سے قبل تین اختیارات دیں یا تواسلام قبول کرلیں تووہ ہماری طرح ہوں کے جوہمارے حقو ق ہیں وہی ان کے ہوں گے۔
یا پھر ذلیل ورسوا ہوکر اپنے ہاتھ سے جزیہ ( ٹیکس ) دیں ، اوریا پھر لڑائ کریں جس سے ان کے خون و مال اور اولاد اورسرزمین حلال ہوجاۓ گی اوروہ مسلمانوں کے لیے مال غنیمت بنے گا ۔
بلاشبہ دین اسلام آسمانی دین ہے جوبندے اوراس کے رب کے درمیان بلاواسطہ تعلق قائم کرتا ہے تو بندہ جب چاہے اپنے رب کی عبادت کرے اورجب چاہے اسے پکارے اس لیے کہ وہ اپنے رب سے عبادت کا رابطہ قائم کيۓ ہوۓ ہے اوراس کی طرف متوجہ ہے اوراس کے سامنے ہی گریہ زاری کرتا ہے جوکسی بھی درویش وراھب و پیر وفقیر کے واسطے کا محتاج نہیں ! ! ۔
اورنہ ہی پیروں فقیروں کی کرامتوں کا محتا ج ہے بلکہ اللہ واحد قہار کے ساتھ بلاواسطہ متوجہ ہوا جاتا ہے ۔
اورجوکچھ آج آپ دیکھ رہے ہیں کہ مسلمانوں پر یھودو نصاری کا تسلط ہے اس کا سبب مسلمانوں کا اپنے دین پر عمل کرنے میں سستی اورجہاد فی سبیل اللہ کی تیاری کا ترک کرنا اوردنیا کے مال متاع سے محبت ہے جس نے ان کے دلوں سے اللہ تعالی اوردار آخرت کی محبت ختم کر ڈالی ہے ۔
اس لیے آپ دیکھتےکہ آج مسلمانوں کا خون بلاقدروقیمت اوربلادریغ بہایا جارہا ہے ان کے گھربغیر کسی قیمت کےمنھدم کیے جارہے ہیں اوران کی روحیں تلکلیفیں جھیل رہی ہيں ۔
اوراللہ تعالی نے تو سچ کہا ہے کہ :
تمہیں جوبھی مصیبتیں آتی ہيں وہ تمہار ھاتھ کی کمائ ہے اوراللہ تعالی بہت سی معاف بھی کردیتا ہے ۔
آج جوذلت و رسوائ ملی ہے وہ ہم مسلمانوں نےخود ہی کمائ ہے نہ کہ اس کا سبب اسلام ہے لیکن جب ہم اپنے دین کی طرف پلٹ آئيں گے توہماری عزت ومرتبہ بھی واپس لوٹ آۓ گی ۔
واللہ اعلم .