الحمد للہ.
اول :
وراثت ميں تين اشياء مانع بنتي ہيں :
پہلي : قتل ، قاتل شخص مقتول كي وراثت ميں سے كسي بھي چيز كا وارث نہيں بنےگا اس كي دليل مندرجہ ذيل حديث ہے :
ابوھريرہ رضي اللہ تعالي عنہ بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلي اللہ عليہ وسلم نے فرمايا: قاتل وارث نہيں بنےگا . سنن ترمذي ( 2109 ) علامہ الباني رحمہ اللہ تعالي نے صحيح سنن ترمذي ( 1713) ميں اسے صحيح قرار ديا ہے .
امام ترمذي رحمہ اللہ تعالي كہتے ہيں: اہل علم كے ہاں عمل اسي پرہے كہ قتل عمد يا قتل خطا ہوقاتل وارث نہيں بنےگا، اور بعض كا كہنا ہے كہ قتل خطا ميں وارث بنےگا امام مالك رحمہ اللہ كا يہي قول ہے .
دوسري : اختلاف دين ، لھذا مسلمان كافر كا اور كافر مسلمان كي وراثت كا وارث نہيں كيونكہ رسول كريم صلي اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
مسلمان كافر كا اور كافر مسلمان كا وارث نہيں . صحيح بخاري ( 6764 ) صحيح مسلم ( 1614 )
تيسري : غلامي : اگر باپ غلام ہواور بيٹا آزادہو وہ دونوں آپس ميں ايك دوسرے كے وارث نہيں بنيں گے، كيونكہ غلام كسي بھي چيزكا مالك نہيں بنتا اس كا سارا مال اس كے مالك كا ہے ، لھذا اگر غلام وارث بنے تو مال مالك كےپاس چلاجائے گا اور وہ اجنبي ہے .
ديكھيں: كتاب : التحقيقات المرضيۃ للفوزان صفحہ ( 45 )
اس بناپر چوركووراثت سے نہيں روكا جاسكتا ليكن اس سے يہ مطالبہ كيا جائےگا كہ اس نے جوكچھ چوري كيا ہے وہ واپس كرے اگرواپس نہ كرے تومسروقہ مال كي تقريبا قيمت نكال كر اسے مال ميراث ميں شامل كيا جائےگا اور پھر تقيسم ہوگي اگر چوري كردہ سے زيادہ باقي بچے تو اسے ديا جائےگا وگرنہ كچھ نہيں ديا جائےگا ، اور چوري كرنے والے كےذمہ چوري اور نافرماني كا گناہ باقي رہےگا.
دوم :
اكثر طور پر ان والدين كوجواپنے بچوں كي تربيت ميں كمي وكوتاہي كرتےہيں قبل اس كے كہ روزقيامت اللہ تعالي ان كا محاسبہ كرے انہيں دنيا ميں اس جيسا ہي پھل ملتا ہے اللہ تعالي نے توماں باپ كواولاد كا مسؤل بنايا ہے عبداللہ بن عمر رضي اللہ تعالي عنھما بيان كرتے ہيں كہ ميں نےرسول كريم صلي اللہ عليہ وسلم كويہ فرماتےسنا :
تم سب ذمہ دار ہو اور تم سب اپني رعايا كےبارہ ميں جواب دہ ہو: امام ذمہ دار ہے اور اپني رعايا كے بارہ ميں جواب دہ ہے ، اور مرد اپنے اہل وعيال كا ذمہ دار ہے اور وہ اپني رعايا كے بارہ ميں جواب دہ ہوگا، اور عورت اپنے خاوند كے گھر كي ذمہ دار ہے اور اپني رعاياكےبارہ ميں جواب دہ ہے ، اور خادم اپنے مالك كے مال ذمہ دار ہے اور اپني رعايا كےبارہ ميں جواب دہ ہے ، اور مرد اپنے والد كے مال كا ذمہ دار ہے اور وہ اپني رعايا كے بارہ ميں جواب دہ ہے ، تم سب ذمہ دار ہو اور اپني رعايا كےبارہ ميں جواب دہ ہو. صحيح بخاري ( 853 ) صحيح مسلم ( 1829 )
اور اللہ تعالي نے والدين كوحكم ديا ہے كہ وہ اپنے آپ اور اپني اولاد كوجہنم كي آگ سے بچائيں فرمان باري تعالي ہے :
اے ايمان والو! تم اپنے آپ اور اپنےگھر والوں كواس آگ سے بچاؤ جس كا ايندھن انسان اور پتھر ہيں ، جس پر سخت دل مضبوط فرشتے مقرر ہيں جنہيں اللہ تعالي جوحكم ديتا ہے وہ اس كي نافرماني نہيں كرتے بلكہ جوحكم ديا جائے اسے بجا لاتے ہيں التحريم ( 6 )
آج ہم جوكچھ اولاد كي جانب سے والدين كي نافرماني كي شكل ميں ديكھتے ہيں وہ اولاد كي حقيقي اسلامي تربيت ميں كمي كوتاہي كا نتيجہ وثمر ہے ، اولاد كي تربيت احكام شريعت سےہٹ كركي جاتي ہے جس كي بنا پر وہ والدين كي حقوق كونہيں پہچانتے تو اللہ تعالي كےحقوق كوكہاں پہچانيں گے، توپھرماں باپ اولاد كي اصلاح كي اميد كس طرح كرتےہيں كہ حالانكہ انہوں نے خود تو اولاد كي تعليم وتربيت اور ديكھ بھال كرنے ميں صحيح راستہ اختيار نہيں كيا ؟ !
اور جن والدين نے اپني اولاد كي حقيقي اسلامي تعليم وتربيت ميں كوئي كمي وكوتاہي نہيں كي پھر بھي ان كي اولاد ہدايت پر نہيں توان كے ليے يہ ايك آزمائش ہے جس سے اللہ تعالي ماں باپ كوآزما رہا ہے ، اور جس نے تربيت كرنے ميں كمي وكوتاہي كي ہے اس كےليے بطورسزا ہوگي .
سوم :
بيٹي سے سب معاملات ميں بائيكاٹ اور قطع تعلقي كرنا اس كي اصلاح كا كوئي مستقل طريقہ نہيں بلكہ ايسا كرنا توانتقام اور سزا كےزيادہ نزديك معلوم ہوتا ہے جس كا نتيجہ اس تصور كے برعكس برا نكلےگا جس كا فاعل نے تصور كيا تھا، كيونكہ بچي كا اپنےگھر والوں قريب رہنا اس كا گھر سے فرار ہونےاور گھر سے نكالےجانے سے بہت بہترہے ، كيونكہ بيٹي كا گھرسے نكلنے ميں اس فساد سے زيادہ فساد اورخرابي ہے جواسكے گھر ميں رہتے ہوئے ہوگي .
اس ليے ہمارے دين ميں بذاتہ بائيكاٹ مشروع نہيں ، بلكہ وہ بائيكاٹ مشروع ہے جواصلاح كا موجب ہو اور اگر بائيكاٹ فساد ميں اضافہ كا باعث بنے تو بائيكاٹ كرنا مشروع نہيں .
واللہ اعلم .