اتوار 21 جمادی ثانیہ 1446 - 22 دسمبر 2024
اردو

بیوی کی تربیت میں خاوند کی ذمہ داری

13802

تاریخ اشاعت : 16-02-2004

مشاہدات : 9739

سوال

جب کوئي مسلمان شخص کسی مسلمان عورت سے شادی کرے اوربیوی کے بارہ میں اللہ تعالی کےقرآن مجید میں واجب کردہ احکامات پورے نہ کرے ، جس کے نتیجہ میں جب وہ مذکورہ عورت اپنے دین کو ترک کردے ، اوروہ اب پردہ نہیں کرتی بلکہ مکمل طور پر اسلامی شعار پر عمل ہی نہیں کرتی ، تومیرا سوال یہ ہے کہ :
ان دونوں کے اعمال کے نتائج کیا ہونگے ، اورآخر میں اس کے نتائج کا ذمہ دار کون ہے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

الحمدللہ

اللہ سبحانہ وتعالی کا فرمان ہے :

اے ایمان والو! اپنے آپ اوراپنے گھر والوں کواس آگ سے بچاؤ جس کا ایندھن لوگ اورپتھر ہیں ، جس پر سخت دل اورمضبوط فرشتے مقرر ہيں جنہیں اللہ تعالی جوحکم دے وہ اس کی نافرمانی نہيں کرتے اورجوانہيں حکم دیا جائے وہ اسے بجا لاتے ہیں التحریم ( 6 ) ۔

اورابن عمر رضي اللہ تعالی عنہما بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

( خبردار تم میں سے ہر ایک حاکم ہے اورہر ایک سے اس کی رعایا کے بارہ میں پوچھا جائے گا ، جو لوگوں پر امیر مقرر ہے وہ حاکم ہے اوراسے اس کی رعایا کے بارہ میں پوچھا جائے گا ، اورمرد اپنے گھروالوں پر حاکم ہے وہ ان کا بارہ میں جواب دہ ہے ، اورعورت اپنے خاوند کے گھراوراس کی اولاد پر حاکم ہے وہ ان کے بارہ میں جواب دہ ہے ، اور غلام اپنے مالک کے مال پر حاکم ہے اسے اس کے بارہ میں جواب دینا ہوگا ، خبردار تم میں سے ہر ا یک حاکم ہے اورتم میں سے ہرایک اپنی رعایا کے بارہ میں جواب دہ ہے ) صحیح بخاری حدحث نمبر ( 7138 ) صحیح مسلم حديث نمبر ( 1829 ) ۔

توان دو نصوں سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ آدمی اپنے گھروالوں کے بارہ میں جواب دہ ہے کہ آیا اس نے ان کی اسلامی تعلیمات کے مطابق تربیت کی یا نہیں ، بلکہ اسے ضرورت کے وقت ان کے ہاتھ پکڑنے چاہیيں اورقوت کا استعمال کرنا چاہیے تا کہ وہ اس اسلوب کواستعمال کرکے مصلحت پوری کرسکے ، اوراللہ تعالی ہر حاکم کا محاسبہ کرے گا کہ آیا اس نے اپنی رعایا جو اس کے ماتحت تھی اس تربیت کی یا نہیں ۔

اورجوبھی اپنے گھروالوں اوراولاد کی تربیت میں کمی و کوتاہی کرتا ہے بلاشک و شبہ وہ بہت ہی بڑے خطرہ کا سامنے کرنے والا ہے ، بلکہ اس کے بارہ میں بہت ہی سخت قسم کی وعید وارد ہے جس سے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں اوربدن پر کپکپی طاری ہوجاتی ہے ۔

معقل بن یسارمزنی رضي اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کویہ فرماتے ہوئے سنا :

( اللہ تعالی نے جسے بھی اس کی رعایا پر حاکم بنایا اوراس نے اپنی رعایا کودھوکہ دیا اوراسی حالت میں مر گیا تو اللہ تعالی نے اس پر جنت حرام کردی ) صحیح بخاری کتاب الامارۃ حدیث نمبر ( 7151 ) صحیح مسلم کتاب الامارۃ حديث نمبر ( 142 ) ۔

لھذا آدمی کی اپنے گھروالوں کے بارہ میں عظیم مسؤلیت اورذمہ داری ہے اس پر ضروری ہے کہ ان کے بارہ میں اللہ تعالی کا تقوی اورڈر اختیار کرے اوراسے صحیح طریقہ پر سرانجام دے جس طرح کہ اس کا حق ہے اوراس کے ساتھ ساتھ اسے اپنےاوراہل وعیال کے لیے دعا بھی کرتے رہنے چاہیے کہ اللہ تعالی انہیں ھدایت اورتوفیق سے نواز ے ۔

اوربیوی کے متعلق گزارش ہے کہ وہ بھی اسی طرح مکلف اوراپنے اعمال کی مسؤ‎ل اورذمہ دار ہے کیونکہ تکالیف شرعیہ امت کے سب مردوعورت پر لازم ہیں صرف جن کوشرعیت نے مستثنی قرار دیا ہے انہیں چھوڑ‍ کر اورکچھ احکام میں فرق کیا ہے مثلا عورت کی نماز مسجد کی بجائے گھرمیں افضل ہے ، جو کہ اس کی عزت کی حفاظت اورمردوں سے اختلاط سے بچنے کے لیے ہے ۔

اسی لیے کتب احادیث میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان مروی ہے :

( عورتیں مردوں کی طرح ہی ہیں ) علامہ البانی رحمہ اللہ تعالی نے اسے صحیح سنن ترمذی ( 1 / 35 ) میں صحیح قرار دیا ہے ۔

سابقہ حدیث میں یہ بیان کیا گيا ہے کہ عورت بھی حاکم ہے اوراسے اس کی رعایا کے بارہ میں باز پرس ہوگی ، اوراللہ سبحانہ وتعالی کا فرمان ہے :

ہر شخص اپنے اپنے اعمال کا گروی ہے الطور ( 21 ) ۔

اورایک دوسرے مقام پر کچھ اس طرح فرمایا :

اوروہ سب کے سب قیامت کے دن اللہ تعالی کے پاس اکیلے حاضر ہونے والے ہیں مریم ( 95 ) ۔

توپھر مسؤلیت انفرادی ہے اورہرایک شخص کا محاسبہ ہوگا اس سے باز پرس ہوگي ، اور وہ نوجوان جوبالغ ہوچکا ہے اگر وہ اپنے والد کی غلط تربیت کی بنا پر گمراہ ہوچکا ہے اوراس تک اسلام پہنچا تواس کے لیے کوئي عذر باقی نہیں ، اس لیے کہ اللہ تعالی نے اسے عقل عطا فرمائي اوراسے اس عقل کی بنا پر مکلف بنایا ہے ، اگرچہ اس کے والد کا بھی تربیت میں کمی وکوتاہی کی بنا پر محاسبہ ہوگا ۔

تواسی طرح بیوی بھی بالاولی اس میں شامل ہے اوراس کا محاسبہ ہوگا ، لھذا بیوی پر واجب ہے کہ وہ اللہ تعالی کا تقوی اختیار کرتے ہوئے اپنے رب سے ڈرے اوراس کی نعمت کا شکریہ ادا کرے کہ اللہ تعالی نے اس پر نعمت کرتے ہوئے سب کفار ممتاز کرتے ہوئے اس پر اسلام کی نعمت کی تواسے چاہیے کہ وہ اپنے رب کے حقوق کی ادائيگي میں سستی نہ کرے اورحرام کاموں سے باز رہے ۔

اوراسے یہ جان لینا چاہیے کہ موت نے اچانک آدبوچنا ہے ، اورموت کے بعد توحساب وکتاب اورسوال وجواب ہونگے نہ کہ اعمال ، موت کے بعد یاتو جنت اوراس کی نعمتیں اورابدی اورہمیشگی والی راحت و سکون ہے جو کبھی ختم نہ ہوگا ، یا پھر جہنم کی آگ ہے جس کے شعلے بڑے بڑے پہاڑوں اورسخت قسم کی چٹانوں کوبھی بھسم کرکے رکھ دیں گے ۔

تواس کے سامنے ہمارے کمزور اورنحیف جسم کی کیا وقعت ہوگی ؟ ہم اللہ تعالی سے جہنم کی آگ سے نجات کے طلبگار ہيں ۔

اورہمارے بھائي آپ پر واجب ہے کہ آپ سچی اورپکی توبہ نصوحہ کریں ، کیونکہ گناہ جتنا بھی بڑا ہوجائے جب اس کا مرتکب ہونے والا توبہ کرے اورتوبہ کی شروط مکمل کرتا ہوا اپنے رب سے رجوع کرے تواللہ تعالی اس کی توبہ قبول فرماتے ہوئے اسے معاف فرما دیتا ہے ۔

پھر آپ اپنی بیوی کی تربیت کرنے کی طرف پلٹیں اوراس میں تدرج اورآسانی والا اسلوب استعمال کرتے ہوئے نرمی اورحکمت سے کام لیں اوراللہ تعالی سے توفیق اورمدد طلب کریں کہ وہ آپ کی بیوی کی تربیت میں آپ کی مدد فرمائے ۔

آپ اس موضوع کے بارہ میں مزید تفصیل کے لیے سوال نمبر ( 10680 ) کے جواب کا بھی مطالعہ کریں ۔

اللہ سبحانہ وتعالی ہی توفیق بخشنے والا ہے ۔

واللہ اعلم .

ماخذ: الشيخ محمد صالح المنجد