الحمد للہ.
میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم منانے کا حکم اورکیا اس کے منانے والے کو مسلمان کہا جائے گا ، اس کے جواب میں تفصیل تو آپ کو اسی ویب سائٹ پر مناسبات و تقریبات کے موضوع میں ملے گی جس کا خلاصہ ہم یہاں پیش کرتے ہیں :
جولوگ میلاد مناتے ہیں ان کی بہت سی اقسام ہيں اس لیے جس طرح کے وہ افعال کریں گے اسی اعتبار سے ان پر حکم لگایا جائے گا ،چاہے میلاد منانا فی ذاتہ ایک بدعت ہے ، لیکن جس طرح کی مخالفت کا مرتکب ہوگا حکم بھی اسی طرح کا ہوگا ۔
اس طرح بعض اوقات معاملہ شرک اوراسلام سے خروج تک جا پہنچتا ہے ، لھذا جب میلاد میں کوئی ایسا کام کیا جائے تو کفریہ ہو مثلا ، غیراللہ سے دعا کرنا اور مانگنا ، یا پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو ربوبیت کی صفات سے متصف کرنا وغیرہ دوسرے شرکیہ کام ۔
لیکن اگر وہ اس حد تک نہیں پہنچتا تووہ کافر نہيں بلکہ اسے فاسق کہا جائے گا اورپھر اس میلاد میں بدعات اورمخالفات کے ارتکاب کے حساب سے فسق بھی کم اورزيادہ ہوگا ۔
میلاد منانے والے شخص سے شادی کا حکم بھی اس شخص کی حالت کے اعتبار سے مختلف ہوگا ، اگر وہ کفریہ کام کرتا ہے تو اس سے کسی بھی حالت میں شادی کرنا جائز نہیں ، کیونکہ اللہ تعالی کا فرمان ہے :
اورشرک کرنے والے مردوں کے نکاح میں اپنی عورتوں کو نہ دو جب تک کہ وہ ایمان نہ لے آئيں ، اورایمان والا غلام آزاد مشرک سے بہتر ہے ، گو تمہيں مشرک اچھا ہی کیوں نہ لگے البقرۃ ( 221 ) ۔
اہل علم کے اجماع کے مطابق اس شخص سے عقد نکاح باطل شمار ہوگا ۔
لیکن اگر وہ بدعتی ہے جس کی بدعت کفر کی حد تک نہیں پہنچتی تو علماء کرام نے اس شخص سے بھی نکاح کرنے سے بچنے کا کہا ہے ، اوراس میں بہت سختی کی ہے ، اسی لیے امام مالک رحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں :
بدعتی سے نکاح نہیں کیا جائے گا اورنہ ہی ان کے نکاح میں اپنی لڑکی دی جائے گی ، اور نہ ہی انہیں سلام کیا جائے ۔۔۔ المدونۃ ( 1 / 84 ) ۔
اورامام احمد رحمہ اللہ تعالی کا بھی اس جیسا ہی قول ہے ۔
آئمہ اربعہ رحمہم اللہ تعالی کا فیصلہ ہے کہ مرد و عورت کے مابین نکاح میں دینی کفو معتبر مسئلہ ہے ، تواس لیے فاسق مرد اور دین دار اورمستقیم مسلمان عورت کے مناسب اور کفو نہيں ۔
کیونکہ اللہ تعالی کا فرمان ہے :
کیا جو مومن ہے وہ فاسق کی طرح ہوسکتا ہے ، یہ دونوں برابر نہیں ہوسکتے ۔
اوراس میں کوئي شک نہيں کہ دین میں بدعات پیدا کرنا سب سے زيادہ اوربڑا فسق ہے ، اوردین میں کفو کے اعتبار کا معنی یہ ہے کہ :
اگرعقد نکاح کےبعد عورت پر یہ انکشاف ہوجائے کہ اس کا خاوند فاسق ہے یا پھر اولیاء کے علم میں یہ بات آجائے کہ خاوند فاسق ہے تو عورت یا اولیاء کو اس عقد نکاح پراعتراض کا حق حاصل ہے اوروہ اس کے فسخ کا مطالبہ کرسکتےہیں ، لیکن اگروہ اپنے اس حق کو ساقط کردیں اوراس خاوند پرراضی ہوجائيں تو یہ عقد نکاح صحیح ہوگا ۔
اس لیے اس طرح کے نکاح سے بچنا ضروری ہے ، اورخاص کر اس لیے بھی کہ مرد کو عورت پر سربراہی اورقوامہ حاصل ہے جس کی بنا پر ہوسکتا ہے عورت کو تنگی اٹھانی پڑے اورخاوند اسے ایسی بدعات کرنے پر مجبور کرے یا اسے کچھ معاملات میں سنت نبویہ کی مخالفت کرنے کا کہے ۔
اورپھر اولاد کا معاملہ تو اس سے بھی زيادہ خطرناک ہے کہ والد انہیں اسی بدعات وخرافات کا عادی بنائے گا اوران کی پرورش بھی اسی طریقہ پر کرے گا تواس طرح وہ بھی اہل سنت صحابہ کرام کے طریقہ کے مخالف پرورش پائيں گے تو اس میں والدہ جو کہ صحیح اہل سنت صحابہ کرام کے طریقہ پر چلنے والی تھی اس پر بھی حرج اورتنگی ہوگی ۔
خلاصہ یہ ہے کہ :
اہل سنت کے ہاں عورت کا کسی بدعتی سے نکاح کرنا بہت شدید قسم کا مکروہ ہے کیونکہ اس پر بہت سی خرابیاں اورفساد مرتب ہوتے ہیں اوربہت سی مصلحتیں ختم ہوکر رہ جاتی ہے ۔
اورپھر جو کوئي بھی اللہ تعالی کے لیے کسی چيز کو ترک کرتا ہے اللہ تعالی اسے اس کا نعم البدل عطا فرماتےہیں ۔
آپ مزید تفصیل کے لیے ڈاکٹر ابراھیم الرحیلی کی کتاب " موقف اہل السنۃ والجماعۃ من اہل الاھواء والبدع " ( 1 / 373- 388 ) کا بھی مطالعہ کریں ۔
واللہ اعلم .