جمعہ 21 جمادی اولی 1446 - 22 نومبر 2024
اردو

كئى برس تك اپنے والد كے پاس قليل سى تنخواہ پر كام كيا اور اب عليحدہ ہو كر اپنا كام كرنا والد سے قطع رحمى تو نہيں كہلائيگى

138446

تاریخ اشاعت : 10-10-2012

مشاہدات : 5661

سوال

ميرى مشكل يہ ہے كہ ميں بچپن سے ہى والد صاحب پر اعتماد كرتا رہا، ميرا سارا خرچ والد صاحب ہى برداشت كرتے رہے، اور ہر چيز لا كر دى ـ ميں اپنى تعليم اس ليے مكمل نہ كر سكا كہ والد صاحب كا اصرار تھا كہ ميں ان كے ساتھ تجارتى معاملات ميں ہاتھ بٹاؤں، اس ليے ميں نے مڈل تك ہى تعليم حاصلى كى، حالانكہ ميں ان كے ساتھ كام نہيں كرنا چاہتا تھا اس كے باوجود والد صاحب كے اصرار پر ميں نے ان كے ساتھ دينا شروع كر ديا.
اور وقت گزرنے كے ساتھ ساتھ ميں كام كرنے كا عادى بھى ہو گيا، اور تقريبا ساٹھ فيصد كام كو پسند كرنا شروع كر ديا، ميں نے والد صاحب كے ساتھ مسلسل سولہ برس تك كام كيا ہے، جس ميں كوئى واضح ترقى نہ ہوئى، يا پھر ميں محسوس كرتا ہوں كہ ميرى ايك اچھى آزمائش تھى.
اللہ تعالى والد صاحب كو جزائے خير عطا فرمائے ميرے سارے اخراجات وہى كرتے رہے، ابتدائى برسوں ميں تو ميں بغير تنخواہ كے كام كرتا رہا، والد صاحب مجھے ايك ہفتہ كا خرچ دے ديتے، يا پھر ميں انصاف كى اور سچى بات كروں تو مجھے اتنا خرچ دے ديتے جو ايك ماہ كے ليے كافى ہوتا.
ليكن يہ خرچ اتنا نہيں تھا كہ ميں اس سے كچھ بچا سكوں، اسى طرح دن گزرتے رہے، اور ميں نے شادى كرنے كا فيصلہ كيا، اللہ تعالى والد صاحب كو جزائے خير عطا فرمائے انہوں نے شادى كے اخراجات كيے، اور مجھے اپنے گھر ميں ہى ايك فليٹ رہائش كے ليے دے ديا، ميں اس نيكى كا كبھى انكار نہيں كرونگا. اس كے بعد والد صاحب نے دو ہزار ريال ميرى تنخواہ مقرر كر دى، اور كچھ سال كے بعد بڑھا كر تين ہزار كر دى، ليكن ميں محسوس كرتا تھا كہ ميں اپنے اس كام پر راضى نہيں ہوں، كيونكہ يہ تنخواہ ميرى ذاتى اور گھريلو ضروريات كے ليے كافى نہ تھى.
تين برس گزرنے كے بعد ميں نے اپنے والد صاحب كى جانب سے برا سلوك ديكھنا شروع كرديا جو بعض اوقات تو گاليوں تك پہنچ جاتى اور دوسروں كو مجھ پر فضيلت ديتے كہ تم سے تو فلاں شخص ہى اچھا ہے، اور فلاں شخص ديكھو وہ تم سے بہتر ہے...
ميں محسوس كرنے لگا كہ والد صاحب دوسروں كو اچھا سمجھتے ہيں، اور انہيں راضى كرنے كى كوشش كرتے ہيں، ليكن ميرے بارہ ميں ان كا رويہ اچھا نہيں ميرے ساتھ معاملات اچھے نہيں كر رہے، مجھے والد صاحب كوئى كام كرنے كا كہتے اور مجھے اس كا صلہ دينے كا بھى وعدہ كرتے ليكن بعد ميں فيصلہ تبديل كرتے ہوئے اپنا وعدہ پورا نہ كرتے اور كہتے كہ مجھے تو كوئى وعدہ ياد نہيں ہے، يا پھر كہتے كہ تم نے كام ميں كوتاہى كى ہے، اس كے علاوہ كئى طرح كے بہانے بنا كر انكار كر ديتے.
اس سب كچھ كے بعد انہوں نے ميرى تنخواہ بھى كم كر كے دو ہزار ريال كردى حالانكہ ميرى عمر اب سينتيس برس ہو چكى ہے، اور ميں شادى شدہ ہوں اور ميرى اولاد بھى ہے، اور ميرے ذمہ كئى قسم كى ذمہ دارياں ہيں، بلاشك آپ كو علم ہے كہ اس وقت مہنگائى كتنى ہو چكى ہے، دو ہزار ريال كس طرح ايك ماہ كے اخراجات پورے كر سكتے ہيں، اور آئندہ مستقبل كى كيا ضمانت ہو سكتى ہے ؟
اور مستقبل ميں بچوں كے ليے كيا بنايا جا سكتا ہے، مجھے كئى قسم كے افكار اور سوچيں گھيرے ركھتى ہيں كہ ميں كوئى اور كام كر لوں، ليكن جب بھى ميں والد صاحب كا سوچتا ہوں تو مجھے پريشانى لاحق ہو جاتى ہے، اور ميں خوف محسوس كرتا ہوں كہ والد صاحب اكيلے رہ جائيں گے اور وہ اس كا اثر بھى ليں گے.
اور اسى طرح ميں ان كى ناراضگى كا خدشہ بھى محسوس كرتا ہوں، جب انہيں علم ہوگا كہ ميں كوئى اور كام تلاش كر رہا ہوں تو وہ ناراض ہونگے، كيونكہ وہ ہر مسئلہ ميں مجھ پر اعتماد كرتے ہيں، چاہے تجارت ہو يا گھر كا كام، يا خاندان كا كوئى معاملہ ہو، ہر كوئى يہى كہتا ہے كہ ميں ہى اس خاندان كا سب كچھ اور محور ہوں.
وہ يہ سمجھتے ہيں كہ اس كام كے پيچھے مجھے بہت كچھ ملتا ہے، حالانكہ فى الواقع ايسا نہيں ہے، بلكہ ميں تو يہ سمجھتا ہوں كہ اس ميں جو خير پائى جاتى ہے وہ يہ كہ اللہ كے حكم سے ميں حسب استطاعت اپنے والد كے ساتھ حسن سلوك كر رہا ہوں، حالانكہ مجھے وہ كچھ حاصل نہيں ہوتا جو ميرے باقى بھائي حاصل كرتے ہيں.
ميرے سارے بھائى مجھ سے چھوٹے ہيں، اور ميں ہى سب سے بڑا ہوں، وہ سب اچھى ملازمت كر رہے ہيں اور ان ميں سے سب كى كم از كم تنخواہ پانچ ہزار ريال ماہانہ ہے، اور پھر وہ غير شادى شدہ ہيں، ليكن ميرى تنخواہ صرف دو ہزار ريال ہے، مجھے علم ہے كہ ميرے مقدر ميں يہى ہے، اور روزى كى تقسيم تو اللہ سبحانہ و تعالى ہى كرتا ہے اس نے ہر انسان كا رزق اور اسكى زندگى اور تقدير لكھ ركھى ہے... اللہ گواہ ہے ميرا اس پر ايمان ہے كہ يہ اللہ كى جانب سے ہے، اللہ نے ميرے ليے جو لكھ ركھا ہے ميں اس پر راضى ہوں، اللہ سبحانہ و تعالى نے انسان كے ليے بہتر ہى لكھا ہے، ہر حالت ميں اللہ سبحانہ و تعالى كا شكر ہے.
ليكن انسان طبعى طور پر كمزور واقع ہوا ہے، اور وہ بعض اوقات دنياوى امور كى طرف مائل ہو كر اس كى جانب جھك جاتا ہے، كہ وہ اپنے كسى دوست يا كسى رشتہ دار يا پھر اپنے ارد گرد رہنے والوں كو ديكھتا اور كہتا ہے كہ: ميں بھى ان جيسى صفات كا مالك كيوں نہيں، وہ اچھا لباس زيب تن كرتے ہيں، اور بہترين گاڑيوں پر سفر كرتے ہيں اور اپنى اولاد كے ليے جو چاہيں لا كر ديتے ہيں ..... ليكن ميں ايسا نہيں ؟
بعض اوقات ميں بھى محسوس كرتا ہوں كہ ميں بھى اس امر واقع كے سامنے سرتسليم خم كر چكا ہوں، ميرے پاس كوئى اچھى ملازمت نہيں ہے، اور نہ ہى ميرے پاس كوئى ايسى تعليمى ڈگرى ہے جو مجھے كوئى اچھى ملازمت دلا دے جس كے ذريعہ ميں اپنے بيوى بچوں كے صحيح طرح اخراجات پورے كر سكوں، اور نہ ہى ميرے پاس كوئى جمع پونجى ہے جس كے ذريعہ كوئى كاروبار شروع كروں.
خلاصہ يہ ہے كہ: اس وقت تو ميرى حالت اور بھى زيادہ خراب ہو چكى ہے كيونكہ گھريلو اخراجات بڑھ چكے ہيں اور ميں محسوس كرتا ہوں كہ دنيا ميرے سر پر سوار ہے ميں اس كا وزن برداشت نہيں كر سكتا، ہر وقت پريشان اور غم كا شكار رہتا ہوں، اور دن بدن نيچے كى طرف ہى جا رہا ہوں، اور پريشانى بھى بڑھ رہى ہے.
اس ليے ميں نے يہ فيصلہ كيا كہ مجھے كوئى اور كام كرنا چاہيے، اور اس كوئى ايسا كام تلاش كروں جو ميرے حالات بدل دے، ميں محسوس كرتا ہوں كہ كسى بھى وقت اپنى بيوى كھو سكتا ہوں، كيونكہ وہ مجھے ہر وقت كوئى اور كام تلاش كرنے پر ابھارتى رہتى ہے، كيونكہ وہ خود بھى ملازمت كرتى ہے اور ميرى تنخواہ سے تين گناہ زيادہ تنخواہ ليتى ہے، اور گھريلو اخراجات ميں ميرى مدد كرتى، بلكہ مجھ سے بھى زيادہ اخراجات برداشت كرتى ہے.
ليكن مرد كى بھى كوئى عزت ہونى چاہيے، اور اس كے نفس كى عزت ہو، ميں جانتا ہوں كہ ان دنياوى امور ميں بيوى اپنے خاوند كى معاونت كر سكتى ہے اس ميں كوئى حرج نہيں ليكن معاملہ مختلف ہے كيونكہ وہ ميرى عيالدارى ميں ہے اس كے اخراجات ميرے ذمہ ہيں، بلكہ ايك دفعہ تو ايسا بھى ہوا كہ ميرى بيوى ميرے فقر كى بنا پر اپنے ميكے بھى چلى گئى اور وہ اس صورت حال سے خوش نہيں ہے، ميں محسوس كرتا ہوں كہ وہ حق پر ہے.
وہ ايسا كرے بھى كيوں نہ، اور كيسے اپنے ميكے جا كر نہ بيٹھے، كيونكہ وہ ديكھتى ہے كہ اس كى سارى سہيلياں اور سارى بہنيں شادى شدہ ہيں اور وہ اپنے ملكيتى گھروں ميں رہتى ہيں، اور اچھى سے اچھى گاڑى ركھى ہوئى ہے، اور بہتر سے بہتر وسائل راحت اختيار كيے ہوئے ہيں، ليكن اسے ان اشياء ميں سے كچھ بھى حاصل نہيں ہے.
اہم يہ ہے كہ ميں نے جب بھى عزم كيا يا ارادہ كيا كہ ميں كوئى اور كام تلاش كروں تو مجھے خوف اور ڈر سا لگا رہتا ہے كہ كہيں مستقبل ميں ناكام نہ ہو جاؤں، جيسا كہ ميں اوپر كى سطور ميں بيان كر چكا ہوں كہ ميں اپنے والد صاحب پر ہى اعتماد كرتا رہا ہوں، اور ميں نے كبھى بھى عليحدہ اكيلے كام نہيں كيا، ميرے والد صاحب نے مجھے عادى بنا ديا ہے كہ ميں ہر چيز ميں ان ميں پر اعتماد كرنے لگا ہوں، اور ميں يہ نقطہ ان كى مصلحت كے ليے ہى استعمال كرتا ہوں.
ليكن اب مجھے ايك ايسا كام ملا ہے جس كے بارہ ميں معلومات اكٹھى كرنے اور الحمد للہ استخارہ كرنے كے بعد مجھے علم ہوا ہے كہ اس ميں ان شاء اللہ خير پائى جاتى ہے، ليكن اندر سے مجھے بہت زيادہ ڈر بھى محسوس ہو رہا ہے استخارہ كے بعد مجھے پچاس فيصد سكون حاصل ہوا ہے، ليكن باقى خوف اور حيرانى پائى جاتى ہے كہ كہيں ناكام نہ ہو جاؤں، ميں وضاحت كے ساتھ بتانا چاہتا ہوں كہ وہ كام درج ذيل ہے:
سامان كى نقل و حمل كے ليے گاڑى چلانا، كہ ہر چيز ايك علاقے سے دوسرے علاقے ميں نقل كى جائے كچھ لوگ حتى كہ ميرے بھائى بھى مجھے يہ كام كرنے پر طعنے ديتے اور عار دلاتے ہيں، حتى كہ ابتدا ميں تو ميرے والد صاحب بھى ميرے ساتھ مذاق كرنے والوں ميں شامل تھے.
ان كا كہنا تھا كہ ميں نے وہ كام شروع كيا ہے جو دوسرے ملكوں سے يہاں كر دوسرے ملازمين كرتے ہيں، ليكن مجھے تو يہ كام اچھا لگا ہے، ميں اس سے اپنى روزى كماتا اور اپنے بيوى بچوں كے اخراجات پورے كرتا ہوں، اللہ سے توفيق كى دعا ہے.
برائے مہربانى يہ بتائيں كہ اس كام كے متعلق آپ كى رائے كيا ہے ؟
اور ميرى حالت كے بارہ ميں آپ كى رائے ميں كيا حل ہے اور مجھے كيا كرنا چاہيے، اور كيا اگر ميں اپنے والد سے عليحدہ اور دور رہ كر كوئى كام كرتا ہوں تو كيا ميں نافرمان كہلاؤنگا، كيونكہ مجھے ڈر ہے كہ كہيں ميں والد صاحب كا نافرمان نہ بن جاؤں، اللہ سے ميرى دعا ہے كہ ميں اپنے والدين سے حسن سلوك كرنے والا بنوں ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

كمال ايمان ميں شامل ہے كہ مسلمان كے ليے اللہ سبحانہ و تعالى نے دنياوى معاملہ ميں جو كچھ تقسيم كيا ہے يعنى روزى اور كام و ملازمت وغيرہ اس پر راضى ہو اور اسے قبول كرے اور نعمت پر شكر كى تكميل اس طرح ہوتى ہے كہ:

مسلمان شخص اپنے اوپر والے شخص كو مت ديكھے كہ جسے اللہ نے دنياوى امور ميں اس پر فضيلت دى ہے اسے ديكھتا پھر اسے ايسا نہيں كرنا چاہيے، تا كہ اسے اللہ كى نعمت كى قدر ہو سكے.

ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" جب تم ميں سے كوئى شخص اسے ديكھے جسے مال اور خلقت ميں اس پر فضيلتى دى گئى ہے تو وہ اپنے سے كم تر شخص كى طرف ديكھے "

صحيح بخارى حديث نمبر ( 6125 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 2963 ).

ايك روايت ميں يہ الفاظ ہيں:

" تم اسے ديكھو جو تم سے نيچے ہے، اور اپنے سے اوپر والے كو مت ديكھو، يہ اس بات كے زيادہ لائق ہے كہ تم اپنے اوپر اللہ كى نعمت كى قدر كرو گے اسے حقير نہيں جانو گے "

صحيح بخارى حديث نمبر ( 6490 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 2963 ).

اس كا معنى يہ نہيں كہ اگر وہ اس امر بر راضى نہيں تو امر واقع كے سامنے سرتسليم خم كر دے، يا پھر دين و دنيا ميں اسے اس سے بہتر حاصل ہونا ممكن ہو تو وہ اسى پر گزارا كرے اور اس سے بہتر كى تلاش نہ كرے.

نہيں بلكہ اسے اللہ كى تقدير كو اللہ كى تقدير سے ہى ہٹانا چاہيے، تو وہ روزى كے ليے بہتر وسائل تلاش كرے، اور تقدير كو اسباب كے ساتھ دور كرے، يعنى ملازمت اور تجارت اور كام كر كے.

دوم:

والدين كے ساتھ حسن سلوك كرنا بہت بڑى نيكى اور اللہ كے قرب كا باعث ہے، جس سے اللہ سبحانہ و تعالى كى خوشنودى اور رضا حاصل ہوتى ہے، اور اسے دنيا و آخرت كى توفيق سے نوازا جاتا ہے، اللہ سبحانہ و تعالى اس كى بنا پر بندے سے تكليف و شرور اور گناہ و آزمائش دور كرتا ہے، اور اس كا علم اللہ ہى كو ہے.

اسى ليے اللہ سبحانہ و تعالى نے والد كا حق بہت بڑا بيان كيا ہے، حديث ميں اس كى تصريح كچھ اس طرح ہے:

ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" بيٹا اپنے باپ كا بدلہ اسى صورت ميں دے سكتا ہے كہ اگر وہ اپنے والد كو غلام پائے تو اسے خريد كر آزاد كر دے "

صحيح مسلم حديث نمبر ( 1510 ).

امام نووى رحمہ اللہ كا كہنا ہے:

" يعنى وہ والد كے احسان كا بدلہ اور اس كا حق اسى صورت ميں كر سكتا ہے كہ وہ اسے خريد كر آزاد كر دے "

ديكھيں: شرح مسلم للنووى ( 10 / 153 ).

جب آپ اپنے والد كے ساتھ حسن سلوك كرتے رہيں اور ان كے حق ميں كوئى كوتاہى نہ كريں تو آپ كا اپنے والد كے پاس سے نكل كر كہيں اور ملازمت اور كام تلاش كرنے ميں ان كے ساتھ قطع تعلقى ميں شامل نہيں ہوگا، خاص كر جب آپ كے بيوى بچے اس كے ضرورتمند بھى ہيں كہ آپ كوئى ايسا كام كريں جس ميں آپ كو زيادہ فائدہ ہو.

ہو سكتا ہے آپ اپنے والد صاحب كے كام كى بجائے كوئى اور كام تلاش كريں تو يہ آپ كے والد كے احساسات كو بيدار كر دے اور وہ آپ كى ضرورت محسوس كرتے ہوئے آپ كى تنخواہ ميں اضافہ كر دے، اور آپ كى معاشى حالت بہتر ہو جائے.

سوم:

آئندہ مستقبل كے بارہ ميں خوفزدہ ہونا اللہ سبحانہ و تعالى پر توكل ميں كمزورى اور ضعف كى علامت ہے، قوى ايمان والا مومن شخص تو اپنى عمر ميں سے كوئى وقت اس ليے نہيں ديتا كہ وہ آنے والے كل كى پريشانى ميں مبتلا ہو اور غم ميں پڑا رہے.

اس كا يہ معنى نہيں كہ مستقبل كى راحت كے ليے جائز اسباب بھى اختيار نہ كيے جائيں، بعض اوقات رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم اپنى بيويوں كے ليے پورے سال كا غلہ اكٹھا كر ليا كرتے تھے.

اس كلام سے ہمارا مقصد تو يہ ہے كہ مومن شخص ميں قوت ايمانى ہونى چاہيے جس سے وہ آئندہ مستقبل ميں پيش آنے والى پريشانى اور خوف كو ختم اور دور كر سكے.

ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" قوى اور طاقتور مومن اللہ كے ہاں ضعيف اور كمزور مومن سے بہتر اور زيادہ محبوب ہے، اور ہر ايك ميں خير پائى جاتى ہے، جو چيز تمہيں فائدہ دے اس كى حرص ركھو، اور اللہ سے مدد مانگو، اور عاجز مت ہو جاؤ.

اور اگر آپ كو كچھ ( تكليف ) ہو جائے تو يہ مت كہو كہ اگر ميں ايسے ايسے كر ليتا تو يہ ہو جاتا، ليكن يہ كہو كہ اللہ تعالى نے جو مقدر كيا تھا وہى ہو، اور اللہ نے جو چاہا كر ديا كيونكہ اگر ( لو ) شيطانى عمل كا دروزاہ كھولتا ہے "

صحيح مسلم حديث نمبر ( 2664 ).

چنانچہ مومن شخص اپنے توكل كى بنا پر قوى و طاقتور ہوتا ہے، اور وہ اپنے خالق و مالك اللہ سبحانہ و تعالى كى مدد و تعاون كر كے قوى ہوتا ہے، مسلمان شخص جو كمزورى اور ضعف يا پھر خوف محسوس كرتا ہے وہ تو صرف شيطانى وسوسہ اور چال ہوتى ہے.

اس ليے مومن شخص پر واجب ہے كہ وہ اللہ سبحانہ و تعالى سے دعا كر كے اور اللہ كى مدد طلب كرتے ہوئے اللہ پر حس توكل كے ساتھ اس وسوسہ كو دور كرے.

اس ليے آپ جو كام بھى كرنا چاہتے ہيں اس ميں اللہ تعالى سے استخارہ كريں، اگر اس كام كے ليے آپ كا شرح صدر ہو اور وہ كام آپ كے ليے آسان ہو جائے تو آپ اس كام كو كر ليں اور اس ميں كسى بھى قسم كا تردد مت كريں، اور اللہ سے مدد طلب كرتے ہوئے كام شروع كر ديں.

مزيد آپ سوال نمبر ( 20088 ) كے جواب كا مطالعہ ضرور كريں.

چہارم:

سامان اور اشياء منتقل كرنے ميں بطور ڈرائيور كام كرنا كوئى گندا اور برا عمل نہيں، اور نہ ہى يہ كام كسى شخص كے ليے عيب كہلاتا ہے، چاہے آپ كے ملك ميں يہ كام دوسروں ملكوں سے آنے والے ملازمين كے ساتھ مخصوص ہے.

چرواہے كا كام كرنے سے اكثر لوگ پسند نہيں كرتے حالانكہ انبياء و رسولوں نے يہ كام كيا ہے.

ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" اللہ سبحانہ و تعالى نے جتنے بھى انبياء مبعوث كيے سب نے بكرياں چرائى ہيں "

صحابہ كرام نے عرض كيا:

اے اللہ تعالى كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم آپ نے بھى ؟

تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" جى ہاں، ميں اہل مكہ كى چند قيراط كے عوض بكرياں چرايا كرتا تھا "

صحيح بخارى حديث نمبر ( 2143 ).

ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ سے ہى روايت ہے كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" زكريا ( عليہ السلام ) بڑھئى تھے "

صحيح مسلم حديث نمبر ( 2379 ).

اور اللہ سبحانہ و تعالى نے قرآن مجيد ميں بتايا ہے كہ داود عليہ السلام لڑائي ميں استعمال كى جانے والى درع بنايا كرتے تھے، اور يہ چيز اللہ سبحانہ و تعالى نے انہيں سكھائى تھى.

اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:

اور ہم نے پہاڑ داود ( عليہ السلام ) كے تابع كر ديے جو ان كے ساتھ تسبيح كرتے تھے، اور پرندے بھى، اور ہم كرنے والے تھے

اور ہم نے اسے تمہارے ليے لباس بنانے كى كاريگرى سكھائى تا كہ لڑائى كے ضرر سے تمہارا بچاؤ ہو، كيا تم شكر گزار بنو گے الانبياء ( 79 - 80 ).

بلكہ ہو سكتا ہے آپ نے جو كام كرنے كى نيت كر ركھى ہے وہ كمائى اور آمدنى ميں سب سے بہتر ہو؛ كيونكہ يہ آپ كے ہاتھ كى كمائى ہوگى، اور پھر حديث ميں وارد ہے كہ:

خالد بن معدان مقدام رضى اللہ تعالى عنہ سے بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" اپنے ہاتھ سے كام كرنے والى كى كمائى سے بہتر كسى كى كمائى نہيں ہے، اور پھر اللہ كے نبى داود عليہ السلام تو اپنے ہاتھ كى كمائى سے كھايا كرتے تھے "

صحيح بخارى حديث نمبر ( 1966 ).

اس ليے ميرے بھائى ميرى آپ كو يہى نصيحت ہے كہ:

آپ اپنے والد سے بہتر اور اچھے طريقہ سے بات كريں كہ جب آپ اپنا كام پورى ديانتدارى سے كر رہے ہيں اور اس ميں كوئى كوتاہى نہيں كرتے تو وہ آپ كى تنخواہ ميں اضافہ كر كے آپ كى حالت سدھارے، اور اس سلسلہ ميں آپ اللہ سبحانہ و تعالى سے دعا بھى كريں كہ وہ آپ كے والد كا آپ كے ليے شرح صدر كر دے، اور صحيح راہ دكھائے.

اور اگر وہ يہ قبول نہ كريں اور آپ كو كوئى ايسى ملازمت اور كام مل جائے جو آپ كے ليے كافى ہو تو آپ كے ليے كوئى دوسرا كام كرنے ميں كوئى حرج نہيں، چاہے وہ ڈرائيور كا كام ہو يا پھر كوئى اور تا كہ آپ اپنى معاشى حالت كو درست كر سكيں.

اور ايسا كرنا قطع رحمى نہيں كہلائيگا، اور جب ڈرائيورى كے كام ميں كوئى حرام يا شبہ والى چيز شامل نہيں ہى تو پھر آپ اس كو ہيچ مت تصور كريں اور اسے اختيار كرنے ميں ہچكاہٹ كا شكار نہ ہوں، كيونكہ آدمى كے ليے بہتر اور اچھى كمائى وہى ہے جو وہ اپنے ہاتھ سے كما كر كھاتا ہے.

اور اگر آپ كو كوئى ايسا كام ملتا ہے جس پر آپ كا والد اور بھائى بھى موافق ہوں تو ہمارى رائے يہى ہے كہ آپ وہ كر ليں، تو اس طرح آپ كے ليے اپنے خاندان والوں كى رضامندى اور كام دونوں كو جمع كر ليں گے.

يہ بھى ممكن ہے كہ آپ كا ڈرائيورى اختيار كرنا آپ كى اولاد كے ليے رشتہ داروں ميں حرج كا باعث بنے جسے آپ دور نہ كر سكيں، اس ليے آپ ان نفسياتى امور كو ذرا غور سے ديكھيں.

رہا شرعى طور پر جائز ہونے كے اعتبار سے تو يہ جائز ہے اور فى ذاتہ اس كام ميں كوئى عيب نہيں، اور نہ ہى يہ كام ہيچ شمار ہوتا ہے، ليكن ہمارى رائے ہے كہ آپ اپنے خاندان والوں كى خوشى كا بھى خيال كريں، اور جس ماحول ميں رہتے ہيں اس كے عرف كو بھى مدنظر ركھيں كيونكہ يہ اہم ہے، اور پھر آپ ان كى مخالفت بھى نہيں كرنا چاہتے، بلكہ آپ كوئى ايسا كام چاہتے ہيں جس سے آمدنى ہو اور آپ كى معاشى حالت بہتر ہو جائے.

اس ليے آپ كوئى ايسا كام تلاش كريں جو آپ كے ماحول كے مناسب ہو، اور اگر ممكن ہو سكے تو آپ اپنے والد كے ساتھ كيے ہوئے كام ميں تجربہ سے بھى مستفيد ہوں، اور تجارت كريں اميد ہے كہ آپ كے ليے يہى مناسب ہوگا.

ب ـ اللہ پر حسن توكل كرتے ہوئے آپ مستقبل كے بارہ ميں خوف كو دور كر ديں، اور اللہ كى طرف رجوع كرتے ہوئے كثرت سے گريہ زارى كريں كيونكہ اللہ سبحانہ و تعالى ہى آپ كو كافى ہے.

اللہ تعالى سے دعا ہے كہ وہ آپ كو عافيت سے نوازے اور آپ كے رزق ميں وسعت پيدا فرمائے، اور آپ سے خوف و خدشات كو دور كرے، اور آپ كے والد كا شرح صدر كرے تا كہ وہ آپ كى حالت كو سدھارنے كا باعث بنے.

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب