الحمد للہ.
اگر خاوند اپنى بيوى كو ہم بسترى كے ليے بلاتا ہے تو بيوى كے ليے اطاعت كرنا واجب ہے؛ كيونكہ امام بخارى اور امام مسلم رحمہما اللہ نے ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ سے حديث بيان كى ہے كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" جب آدمى اپنى بيوى كو اپنے بستر پر بلائے اور وہ انكار كر دے اور خاوند رات ناراض ہو كر بسر كرے تو صبح ہونے تك فرشتے اس پر لعنت كرتے رہتے ہيں "
صحيح بخارى حديث نمبر ( 3237 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 1436 ).
اس ليے يہاں خاوند كى اطاعت واجب ہے، اور نماز كا وقت شروع ہونے سے قبل سونا حرام نہيں، چاہے اس سے كے نتيجہ ميں نماز فوت ہو جائے، جيسا كہ مالكيہ اور شافعى حضرات نے بيان كيا ہے.
كيونكہ وقت سے قبل مكلف كو نماز كا نہيں كہا جائيگا ليكن جب يقين ہو جائے كہ وہ نماز كے ليے نہيں اٹھ سكے گا، اور اس نے بيدار كرنے كے ليے بھى كسى كو نہ كہا ہو تو نماز كا وقت شروع ہو جانے كے بعد سونا حرام ہے.
عدوى رحمہ اللہ اجھورى سے نقل كرتے ہيں كہ:
" انسان كے ليے رات كو سونا جائز ہے، اگرچہ اس كا اعتقاد ہو كہ وہ صبح تك سويا رہےگا اور نماز نكل جائيگى؛ كيونكہ وہ ايك جائز امر كو ايسى چيز كے ليے ترك نہيں كر سكتا جو اس پر واجب بھى نہيں.
جيسا كہ باجى نے اصحاب سے نقل كيا ہے، ليكن وقت شروع ہو جانے كے بعد سونے ميں گزارش ہے كہ: اگر اسے يقين ہو كہ يا پھر ظن غالب ہو كہ وہ وقت نكلنے تك سويا رہے گا تو پھر اس كے ليے ايسا كرنا جائز نہيں " انتہى
يعنى جب نہ تو كسى كو بيدار كرنے كا كہا جائے، اور اٹھنے كا انتظام نہ كيا جائے تو يہ جائز نہيں، اور اگر وقت نكلنے كا شك ہو تو پھر جائز ہے " انتہى
ديكھيں: حاشيۃ العدوى على الخرشى ( 1 / 220 ).
اور دردير رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" نماز كا وقت شروع ہونے سے قبل سونا حرام نہيں، چاہے اسے علم بھى ہو كہ وہ سارا وقت سوتا رہےگا، ليكن اگر ظن غالب ہو كہ وقت نكلنے كے بعد تك سويا رہےگا تو پھر وقت شروع ہو جانے كے بعد سونا جائز نہيں ہے " انتہى
ديكھيں: الشرح الصغير ( 1 / 233 ).
اور حاشيۃ الجمل على منھج الطلاب ميں ہے:
" اگر وقت داخل ہونے سے قبل سوگيا تو حرام نہيں چاہے اس كا ظن غالب ہو كہ وہ بيدار نہيں ہو سكےگا؛ كيونكہ ابھى تو وہ اس كا مخاطب بھى نہيں ہے.
اور اگر وقت داخل ہونے كے بعد اس پر نيند غالب آ گئى اور اس فعل پر عزم بھى تھا اور اس نے بندوبست بھى كيا تو پھر اس ميں مطلقا حرمت اور كراہت نہيں ہے "
پھر يہاں تك كہتے ہيں:
" اگر علم ہو كہ وہ نيند ميں زيادتى نہيں كر رہا، يا پھر اس كى حالت كا علم نہ ہو تو ا يسے شخص كو نماز كے ليے بيدار كرنا سنت ہے.
ليكن اگر علم ہو جائے كہ وہ نيند ميں زيادتى كر رہا ہے، مثلا پتہ چل جائے كہ وہ وقت شروع ہونے كے بعد سويا ہے حالانكہ اسے وقت داخل ہونے كا علم تھا اور جانتا تھا كہ وقت ميں نہيں اٹھ سكےگا توا يسے شخص كو بيدار كرنا واجب ہے " انتہى
ديكھيں: حاشيۃ الجمل على منھج الطلاب ( 1 / 273 ).
ليكن اس ميں شافعيہ كى ايك جماعت نے مخالفت كى ہے:
ابن حجر رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" اگر نيند غالب آ جائے كہ اسے تميز ہى نہ رہے اور نہ ہى وہ نيند كو دور كر سكتا ہو تو پھر نيند كرنا جائز ہے، يا پھر اس كے ظن غالب ميں ہو كہ وہ بيدار ہو جائيگا، اور نماز اور طہارت كے ليے وقت باقى رہےگا تو پھر جائز ہے، وگرنہ حرام، چاہے وقت داخل ہونے سے قبل ہى ہو، جيسا كہ اكثر نے كہا ہے، اور اس ليے ابو زرعہ كہتے ہيں:
ان لوگوں نے جو كہا ہے يہ اس كے خلاف منقول ہے " انتہى
ديكھيں: تحفۃ المحتاج ( 1 / 429 ).
لہذا اوپر پہلے علماء نے جو بيان كيا ہے اس كے مطابق تو نماز كا وقت داخل ہونے سے قبل سونے پر گنہگار نہيں ہوگا چاہے سارا وقت ہى نيند ميں گزر جائے.
اس ليے جب خاوند آپ كو بلائے تو آپ اس كى ا طاعت كريں، اور نماز كے ليے بيدار ہونے كى كوشش كريں، اور اس كے ليے وسائل اور اسباب مہيا كريں، مثلا الارم لگائيں.
واللہ اعلم .