الحمد للہ.
نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم اور خلفاء راشدين رضى اللہ تعالى عنہم كے دور مبارك ميں عمل تو يہى تھا كہ: جب كوئى عورت فوت ہو جاتى تو اسے عورتيں ہى غسل ديتيں مرد نہيں، صرف بيوى كے فوت ہونے كى صورت ميں خاوند كو حق حاصل ہے كہ وہ اسے غسل دے يا پھر اسے بھى عورتيں ہى غسل ديں، اور اسى طرح لونڈى كے بارہ ميں اس كا مالك اسے غسل دے سكتا ہے جب تك كہ وہ اس كے ليے مباح ہو.
اور اگر مرد فوت ہو جائے تو اسے مرد ہى غسل ديں گے، عورتيں نہيں ليكن خاوند فوت ہونے كى صورت ميں بيوى كو يہ حق حاصل ہے كہ وہ اسے خود غسل دے يا پھر مردوں كے ليے رہنے دے.
تو اس بنا پر نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم اور صحابہ كرام سے جو كچھ معلوم ہوا ہے آپ كا اپنى والدہ كو غسل دينا خلاف شريعت تھا، اگرچہ وہ بڑى عمر كى ہى تھى، لھذا آپ كو چاہيے كہ اللہ تعالى سے توبہ و استغفار كريں اور اس كے بعد اپنى محرم عورتوں ميں سے ايسا كسى كے ساتھ بھى نہ كريں، اگرچہ اس ميں كتنى بھى نيت اچھى اور مقصد نيك ہى كيوں نہ ہو.
اللہ تعالى ہى توفيق بخشنے والا ہے، اور اللہ تعالى ہمارے نبى محمد صلى اللہ عليہ وسلم اور ان كى آل اور صحابہ كرام پر اپنى رحمتيں نازل فرمائے.
واللہ اعلم .