سوموار 24 جمادی اولی 1446 - 25 نومبر 2024
اردو

اللہ تعالي كي وحدانيت اور رسول كريم كي رسالت كي گواہي زبان سے ادا كرنے سےقبل كوئي عمل صحيح نہيں

13986

تاریخ اشاعت : 29-12-2004

مشاہدات : 6173

سوال

ميں تقريبا دو برس سے قرآن مجيد پڑھ رہي ہوں، اور تقريبا پورا پڑھ چكي ہوں قرآن پڑھنے سے مجھےقرآن مجيد كي حقيقت پر اطمينان ہوگيا، اور اسي طرح ميں نے اس برس اور پہلي مرتبہ اپني سہيليوں كےساتھ رمضان المبارك كےروزے بھي ركھنےشروع كيےہيں.
ليكن ہوا يہ كہ رمضان كے دوسرے روز ماہواري شروع ہوگئي تو ميں نے اس كےمتعلق اپني دو سہيليوں سے دريافت كيا تو مجھے دو مختلف سےجواب ملے ايك سہيلي نے توروزے جاري ركھنے كا كہا، ليكن دوسري نے روزے نہ ركھنے كا كہا، پھر ميں نےاپنےايك دوست سے پوچھا تواس نے مجھے روزے نہ ركھنے كا كہا.
اور كل ميں نے رمضان المبارك كےمتعلق ايك مضمون پڑھا جس ميں يہ ذكر كيا گيا تھا كہ اگر كوئي شخص كلمہ ( ہو سكتا ہے اس كي مراد كلمہ طيبہ ہو ) نہيں پڑھتا تواس كے روزے قبول نہيں، ميں دوبارہ اپنا قصہ نہيں دہرانا چاہتي ليكن ميں نے اپنے دوست كوموبائل ميسج ( sms )كي صورت ميں كلمہ بھيجا اور وہ سب جانتےہيں كہ ميں حقيقتا ايمان لا چكي ہوں.
ميرے حالات اسلام ظاہركرنے كي اجازت نہيں ديتےميں مسلمانوں كي طرح ہي زندگي بسر كررہي ہوں اوراللہ تعالي سےدعا كي ہے كہ وہ ميري مدد فرمائے، ميرا ايمان ہے كہ اللہ تعالي ميري حقيقت حال سےواقف ہے، تو كيا ميرے ليے روزے مكمل كرنےجائز ہيں، يا ميں اس سے رك جاؤں ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اللہ تعالى سے ہماري دعا ہے كہ آپ كا سينہ اسلام كےلئےكھول دےاور ظاہرى وباطنى شعار پرعمل كرنے كي توفيق دے اور اس ميں آپ كي مدد كرے اس ميں كوئي شك نہيں كہ آپ كا قرآن مجيد كي تلاوت اور پڑھنے كي حرص ركھنا اورروزے ركھنے كي حرص اس بات كي دليل ہے كہ آپ بہت زيادہ خيرو بھلائى كي مالك ہيں اور آپ ميں اعمال صالحہ كي محبت پائي جاتى ہے.

ہمارى اللہ تعالى سےدعا ہےكہ وہ آپ كو توفيق عطا فرمائے اور آپ كي مدد كرے، ليكن آپ كےليے يہ جاننا ضرورى ہے كہ يہ دين عظيم دين اسلام اللہ عزوجل جو كہ حكمت والا اورعلم والا ہےاس كي جانب سےہے، لھذا جو اللہ تعالى نےحكم ديا ہےاورجو نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا حكم ہے وہى دين اسلام ہے، اور يہ ممكن ہى نہيں كہ ہم رسول كريم صلي اللہ عليہ وسلم كےبغير ہي دين كو جان ليں، اس لئے كہ نبي كريم صلى اللہ عليہ وسلم ہى اس دين كو اللہ تعالى جانب سے ہم تك پہنچانےوالے ہيں.

اور نبي كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے كئي ايك احاديث ميں ہميں يہ بتايا ہے كہ كلمہ طيبہ ( لاالہ الا اللہ محمد رسول اللہ ) زبان سےادا كرنے سے قبل كوئي عمل صالح بھي قابل قبول نہيں، بلكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم اپنےصحابہ كرام كو يہ حكم ديتے كہ وہ كسي كو بھي اس دين شعار پر عمل كرنے كا اس وقت تك حكم نہ ديں جب تك وہ يہ دونوں گواہياں ( لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ ) نہيں دے ديتا.

لھذا صحيح بخاري ميں ہے كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے معاذ رضى اللہ تعالى عنہ كو يمن بھيجا كہ اہل كتاب كو اسلام كي دعوت ديں تو انہيں فرمايا:

( تم اہل كتاب ميں سےايك قوم كےپاس جارہے ہو تمہارا سب سے پہلا كام يہ ہے كہ انہيں اس گواہي كي دعوت دو كہ اللہ تعالي كے علاوہ كوئي اور معبود برحق نہيں اور ميں اللہ تعالي كا رسول ہوں، اگر وہ تمہاري يہ بات تسليم كرليتےہيں توپھر انہيں يہ بتاؤ كہ اللہ تعالى نےان پر ہر دن اور رات ميں پانچ نمازيں فرض كيں ہيں، اگر وہ يہ بات بھي تسليم كرليں تو پھر انہيں يہ بتاؤ كہ اللہ تعالى نے تم زكوۃ فرض كي ہے جو تم ميں سےغني لوگوں سے ليكر تمہارے فقير لوگوں كو ديا جائےگا.... الحديث ) صحيح بخاري حديث نمبر ( 7372 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 19 ) اور مسلم شريف كي ايك روايت ميں ہےكہ:

( تم سب سے پہلےانہيں جس كي دعوت دو وہ يہ ہے كہ.... )

اللہ تعالي آپ كو خيروبھلائي كي توفيق دے تواس حديث سے ہميں يہ پتہ چلتا ہے كہ جب كوئي اسلام قبول كرنا چاہے تو سب سےپہلا كام كلمہ پڑھنا يعني اللہ اور اس كےرسول كي گواہي زبان سےدينا ہے، ليكن اس ميں يہ شرط نہيں كہ اگرآپ استطاعت اورطاقت نہيں ركھتيں كہ اس كا اپنےگھروالوں كےسامنےاعلان كريں، اگرآپ كو اپنےآپ اوردين كا خوف ہے تواس كا اعلان نہ كريں، بلكہ اپنےآپ سے ہي زبان كےساتھ يہ كلمہ پڑھ ليں حتى كہ جب آپ ميں اعلان كرنےكي طاقت پيدا ہو جائےتوپھراس كا اعلان كرنا واجب ہوگا.

اور رہا مسئلہ روزے ركھنے كا اس كےبارہ ميں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نےحكم ديا ہے كہ ماہواري والى عورت حيض كي حالت ميں نماز كي ادائيگي اور روزہ ركھنےترك كردے، اورجب ماہوارى ختم ہو جائے تو اس پران ايام كے روزے ركھنےواجب ہونگےجواس سےرہ گئےتھے، ليكن اس پرنمازوں كى قضاء نہيں ہے، اس كي دليل مندرجہ ذيل ہے:

ايك عورت نےام المؤمنين عائشہ رضي اللہ تعالى عنہا سےكہا كہ حيض والى عورت كو كيا ہے كہ وہ روزے كي قضاء ادا كرتى ہے اور نماز كي قضاء نہيں كرتى؟

توعائشہ رضى اللہ تعالى كہنےلگيں: كيا تم خارجى ہو؟ تو اس عورت نےجواب ميں كہا نہيں ليكن ميں سوال كر رہى ہوں، توعائشہ رضى اللہ تعالى عنہا كہنےلگيں: ہميں روزں كي قضاء كا توحكم ديا جاتا ليكن نماز كي قضاء كا حكم نہيں . صحيح بخاري حديث نمبر ( 321 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 335 ) .

اس عورت كواشكال پيدا ہوا كہ عورت كو جب ماہوارى آئے تو وہ نماز اور روزہ ترك كرتي ہے اور اللہ تعالى نے اسے روزے كي قضاء كرنے كا حكم ديا اور نماز كي قضاء كا حكم نہيں ديا، تو عائشہ رضي اللہ تعالى نے اسے جواب ديا كہ يہ اللہ تعالي اور اس كے رسول صلي اللہ عليہ وسلم كا حكم ہے، اور ہم پر واجب ہے كہ اللہ تعالى اور اس كے رسول صلي اللہ عليہ وسلم كي بات كو تسليم كريں اوراسے اپني عقلوں سے نہ پركھيں، اس لئے كہ ہماري عقليں پيدا كردہ اور كمزوروناتواں ہيں يہ حكمت والے اورخبردار رب ذوالجلال كي حكمت سے صرف بہت تھوڑي چيز كا ادراك كرسكتى ہيں، اللہ تعالى نےتوہميں يہي سكھايا ہے.

اور يہ حكم جو ہم نےذكر كيا ہے اس پر سب مسلمانوں كا اتفاق ہے، امام عبدالبر رحمہ اللہ تعالى اپنى كتاب " التمہيد" ميں كہتےہيں:

اس پر اجماع ہے كہ حيض والى عورت نماز ادا نہيں كرےگى. ديكھيں: التمہيد ( 16 / 67 ).

اور ان كا يہ بھى كہنا ہےكہ:

اس پربھي اجماع ہےكہ حيض والى عورت اپنےايام حيض ميں روزے نہيں ركھےگى، اور قضاء ميں روزے تو ركھےگي ليكن نماز قضاء ميں ادا نہيں كرےگي، اس ميں كوئى كسي بھي قسم كا اختلاف نہيں. ديكھيں: التمہيد ( 22 / 107 ).

اور دين اسلام كےباقي احكام كےمتعلق يہ ہےكہ آپ پرواجب اور ضرورى ہے كہ جتني طاقت ركھتى ہوں ان پر عمل كريں، اور كسي ايسےخوف كي بنا پر جس آپ كو اپنى جان يا دين كو خطرہ ہو جس كي طاقت نہيں ركھتيں وہ نہ كريں كيونكہ وہ آپ سےساقط ہوجائےگا، جيسا كہ علماء كرام نےبيان كيا ہے .

اس لئےكہ اس صورت ميں آپ مجبور كےحكم ميں ہونگي، اور اللہ تعالى نے كفر پر مجبور كئےگئےشخص سے تخفيف كردي ليكن شرط يہ ہے كہ اس كا دل ايمان پر مطمئن ہواور وہ كفر كو ناپسند كرتا ہو.

اللہ تعالى كا فرمان ہے:

جوشخص اپنےايمان كےبعد اللہ سےكفركرے سوائےاس كےجس پر جبر كيا جائےاور اس كا دل ايمان پر برقرار ہو مگر جو لوگ كھلےدل سےكفر كريں تو ان پر اللہ تعالى كا غضب ہے اور انہيں كےلئے بہت بڑا عذاب ہےالنحل ( 106 ).

اس كي تفصيل كےلئے الموسوعۃ الفقہيۃ ( 13/ 196 ) كا مطالعہ كريں

ليكن آپ پرواجب ہے كہ دين اسلام كےجن احكام اورشعار پر عمل كرسكتي ہيں انہيں ادا كريں اورپھر يہ كوشش كريں كہ كسي ايسي جگہ منتقل ہوجائيں جہاں پرآپ دين اسلام پراپني استطاعت كےمطابق آساني سےعمل كرسكيں، اس فعل كو اسلام ہجرت كا نام ديتےہيں، اور ہجرت ہر اس مسلمان مرد وعورت پر فرض ہے جب وہ اپنےملك ميں اسلامي شعار پر عمل نہ كرسكتےہوں اور ہجرت كرنےپرقادر بھي ہوں اس كي دليل مندرجہ ذيل فرمان باري تعالي ہے:

جولوگ اپني جانوں پر ظلم كرنےوالےہيں جب فرشتےان كي روح قبض كرتےہيں تو پوچھتےہيں، تم كس حال ميں تھے؟ يہ جواب ديتےہيں كہ ہم اپنى جگہ كمزور اور مغلوب تھے، فرشتےكہتےہيں كيا اللہ تعالى كي زمين كشادہ نہ تھى كہ تم ہجرت كرجاتے؟ يہى لوگ ہيں جن كا ٹھكانا جہنم ہے اور وہ پہنچنے كي برى جگہ ہے، مگر جو مرد وعورتيں اور بچے بےبس ہيں، جنہيں نہ تو كسى چارۂ كار كي طاقت اور نہ كسى راستے كا علم ہے النساء ( 97 - 98 ) .

تويہ اس پر دلالت كرتى ہےكہ ہجرت صرف كمزوروں سےساقط ہوتي ہے.

صاحب المغنى المحتاج كا كہنا ہے:

اوراگر اس كےلئے اپنےدين كا اظہار كرنا ممكن نہ ہو يا اس ميں فتنے كا ڈر ہو تو اس پر ہجرت كرنا (واجب) ہے چاہے وہ مرد ہو يا عورت اگرچہ اسے محرم نہ بھي ملے، ( اگر ہجرت كي طاقت ركھے) كيونكہ اللہ تعالى كا فرمان ہے:

جولوگ اپني جانوں پر ظلم كرنےوالےہيں جب فرشتےان كي روح قبض كرتےہيں الايۃ

اور ابوداود وغيرہ كي حديث كي بنا پر بھي كہ " ميں ہر مسلمان سے برى ہوں جو مشركوں كےدرميان رہتا ہے. يہ حديث صحيح ہے ديكھيں الارواء ( 5 / 30 )

ديكھيں: المغنى المحتاج ( 6 / 54 ) .

اور ابن رشد رحمہ اللہ تعالى كہتےہيں:

كتاب وسنت اور اجماع كي بنا پر ہر اس شخص پر جو كافر ملك ميں اسلام قبول كرے واجب ہوجاتا ہے كہ وہ كفر كےملك كوچھوڑ كراسلامي ملك ميں چلا جائے، اور مشركوں كےدرميان رہائش نہ ركھے اوران كےہاں نہ رہے، يہ اس وقت ہے جب وہ اسلامى شعار اوراحكام پر عمل نہ كرسكتا ہو يا پھر اسے كفر كےاحكام پر مجبور كيا جاتا ہو. اھ بحوالہ الموسوعۃ الفقہيۃ ( 4 / 264 ) .

باوجود اس كےكہ ہجرت ميں اپنےوطن اوراہل وعيال سےجدا ہونا پڑتا ہے ليكن اللہ تعالي ہجرت كرنےوالے كےدل ميں سعادت ڈال ديتا ہے جواس كي خوشى وسرور ہجرت كي حرص كا سبب بنتا ہے.

تواس سےآپ كےلئے يہ واضح ہوگيا ہوگا كہ جس سےآپ معذور ہيں اللہ تعالى اپنى رحمت سے اس ميں آپ كو معذور تسليم كرےگا، اور جن دينى شعار كي طاقت ركھتى ہيں ان پر عمل كرنا آپ كےلئےواجب اور ضرورى ہے اگرچہ وہ خفيہ طور پر ہي كئےجائيں، اور اگراس راستےميں آپ كوكچھ تنگى اور تكليف بھى آئے تواسےبرداشت كرنےپر آپ كواللہ تعالى اجروثواب سےنوازےگا، اللہ تعالى كي كتاب قرآن مجيد ايسےقصوں سے بھري پڑى ہے، اور اس كےساتھ آپ كا زبان سےكلمہ ادا كرنا بہت اہميت ركھتا ہے كيونكہ اللہ تعالى اس ميں بہت ہى آساني پيدا فرمائےگا، لھذا ہم آپ كو نصيحت كرتےہيں كہ آپ زبان سےكلمہ پڑھ ليں اگرچہ آپ اپنے درميان ہي ركھيں، كيونكہ آپ كےاسلام كا صحيح ہونا اسي پر موقوف ہے، حتى كہ آپ كو اللہ تعالى اعلانيہ طور پر كلمہ پڑھنےكي فرصت اورموقع فراہم كرے، اللہ تعالى آپ كوخير وبھلائي كي توفيق عطا فرمائے.

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب