الحمد للہ.
اول:
زنا اكبر الكبائر گناہوں اور سب سے بڑى مصيبت ميں شامل ہوتا ہے، اور يہ سب سے رزيل كام ہے، اس كا دنيا و آخرت اور قبر ميں بھى بہت شديد قسم كا عذاب ہے.
اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:
آج تمہارے ليے پاكيزہ اشياء اور ان لوگوں كا كھانا جنہيں كتاب دى گئى ہے حلال كر ديا گيا ہے، اور تمہارا كھانا ان كے ليے حلال ہے، اور پاكباز مومن عورتيں اور ان لوگوں كى پاكباز عورتيں جنہيں تم سے قبل كتاب دى گئى ہے جب تم انہيں ان كے مہر ادا كر دو، عفت و عصمت اختيار كرتے ہوئے نہ كہ زناكارى اور بدكارى كرتے ہوئے اور پوشيدہ دوستياں لگاتے ہوئے اور جو كوئى بھى ايمان كے ساتھ كفر كيا تو اس كے اعمال ضائع ہو گئے، اور وہ آخرت ميں نقصان اٹھانے والوں ميں سے ہوگا المآئدۃ ( 5 ).
ابن كثير رحمہ اللہ اس كى تفسير ميں كہتے ہيں:
" جس طرح اللہ تعالى نے عورتوں ميں پاكباز ہونا ـ جو كہ زنا سے عفت اختيار كرنا ہے ـ شرط لگائى ہے، اسى طرح مردوں ميں بھى اس كى شرط ركھى ہے كہ مرد بھى محصن اور عفيف و پاكباز ہو، اسى ليے اللہ سبحانہ و تعالى نے فرمايا:
وہ زناكارى اور بدكارى كرنے والے نہ ہوں .
اور يہ و لوگ ہيں جو زناكرنے والے ہيں جو معصيت و نافرمانى سے اجتناب نہيں كرتے، اور نہ ہى اپنے آپ كو ايسى عورت سے بچاتے ہيں جو ان كے پاس آئے اور وہ خفيہ دوستياں نہيں لگاتے يعنى انہوں نے عورتوں سے دوستياں لگاتے ہيں اور ان كے ساتھ بدفعلى كرتے ہيں " انتہى
ديكھيں: تفسير ابن كثير ( 3 / 43 ).
اور شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ كا كہنا ہے:
" عورت كا خاوند جب كسى دوسرى عورت سے زنا كرتا ہو اور حلال و حرام ميں تميز نہ كرے تو اس كا بيوى سے وطئ كرنا اسى جنس سے ہے جو زانى عورت سے وطئ كرتا ہے جس سے زنا كيا جائے اگرچہ اس سے اس كے علاوہ كوئى اور اس سے وطئ نہيں كرتا، اور زنا كى صورت ميں يہ بھى شامل ہے كہ خفيہ دوستياں لگائى جائيں "
ديكھيں: مجموع الفتاوى ( 32 / 145 ).
شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ سے دريافت كيا گيا:
ايك عورت نے اپنے خاوند كو " اللہ محفوظ ركھے " زنا كرتے ہوئے ديكھا تو وہ كيا كرے ؟
شيخ رحمہ اللہ كا جواب تھا:
" وہ اسے نصيحت كرے، خاص كر اگر وہ پہلى بار ہے اور اس كى اولاد بھى ہو تو اسے نصيحت كرنى چاہيے، ليكن اگر وہ يہ فعل ہميشہ كرتا ہے تو پھر اس سے فسخ نكاح كا مطالبہ كرے بہر حال اسے عموما مصلحت و خرابى كو مدنظر ركھنا چاہيے اور ان دونوں ميں موازنہ بھى كرنا چاہيے " انتہى
ديكھيں: ثمرات التدوين من مسائل ابن عثيمين ( 112 ).
مزيد آپ سوال نمبر ( 115107 ) كے جواب كا مطالعہ ضرور كريں.
دوم:
بيوى كو حق حاصل نہيں كہ وہ خاوند سے اثنائے جماع كنڈوم استعمال كرنے كا مطالبہ كرے، الا يہ كہ اگر اس كا كوئى سبب ہو؛ صرف اس كا كسى دوسرى عورت سے شرعى شادى كرنا اسےمباح نہيں كرتا، الا يہ كہ جب يہ واضح ہو جائے كہ اس كا خاوند اسى بيمارى كا شكار ہے مثلا ايڈز وغيرہ.
جس كا جماع كے ذريعہ منتقل ہونا ممكن ہے، يا پھر يہ واضح ہو كہ دوسرى بيوى كو اس طرح كا مرض لاحق ہے يا پھر خاوند شادى كے علاوہ حرام تعلقات بھى ركھتا ہے، تو يہاں بيوى كو حق حاصل ہے كہ وہ خاوند سے كنڈوم استعمال كرنے كا مطالبہ كر سكتى ہے، تا كہ مظنونہ ضرر ونقصان سے بچا جا سكے اس وقت تك كہ اس كى سلامتى واضح ہو جائے.
اور اگر يہ واضح ہو جائے كہ وہ صحيح و سليم ہے اور كوئى ايسا ظاہر مصدر نہيں جس سے اس كے ذريعہ بيمارى منتقل ہونے كا خطرہ ہو تو اسے ايسا مطالبہ كرنے كا حق حاصل نہيں اور اگر يہ واضح ہو جائے كہ اسے ايسى بيمارى اور مرض ہے جو اسے نقصان دےگى يا متعدى طريقہ سے اس ميں منتقل ہو جائيگى تو بھى بيوى اس كے استعمال كا مطالبہ كر سكتى ہے.
بلكہ اس وقت تو اسے فسخ نكاح كا حق حاصل ہے، جب اسے اسب بيمارى ميں اپنے ليے خطرہ ہو، اور اسب يمارى كا علاج مشكل ہو يا نہ ہو سكتا ہو تو وہ فسخ نكاح كا دعوى كر سكتى ہے مثلا ايڈز وغيرہ.
اس سلسلہ ميں مزيد تفصيلات كے ليے ڈاكٹر عمر سليمان الاشقر كى كتاب " دراسات فقھيۃ فى قضايا طبيۃ ( 1 / 25 ) كا مطالعہ كريں.
واللہ اعلم .