الحمد للہ.
اول:
راجح قول کے مطابق نفل نماز پڑھانے والے امام کے پیچھے فرض ادا کرنا جائز ہے، اسی طرح اس کے بر عکس بھی صحیح ہے۔ اس کی تفصیل (153386 )کے جواب میں گزر چکی ہے۔
چنانچہ اگر مقتدی کسی تراویح پڑھانے والے امام کے پیچھے نماز ادا کر رہا ہو تو امام کے سلام پھیرنے کے بعد وہ کھڑا ہو جائے گا اور پھر اپنی بقیہ نماز مکمل کرے گا۔
امام نووی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اگر عشا کی نماز؛ تراویح پڑھانے والے کے پیچھے ادا کی جائے تو جائز ہے، چنانچہ وہ امام کے سلام پھیرنے کے بعد اپنی بقیہ دو رکعات پوری کرے گا۔" ختم شد
المجموع" (4/168)
دوم:
قیام اللیل کے لیے شرعی حکم یہی ہے کہ دو ، دو رکعت ادا کی جائیں؛ کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان ہے: (رات کی نماز دو، دو رکعت ہے) اس حدیث کو امام بخاری: (993) اور مسلم : (749)نے روایت کیا ہے۔
امام احمد نے اس حدیث کو وجوب کے معنی میں لیا ہے، چنانچہ اگر کوئی قیام اللیل کی نماز میں عمداً تیسری رکعت کے لئے کھڑا ہو جائے تو امام احمد اس کی نماز باطل ہونے کے قائل ہیں، امام احمد کا کہنا ہے کہ: "قیام اللیل میں تیسری رکعت کے لیے کھڑے ہونے والا ایسے ہی ہے جیسے فجر کی نماز میں تیسری رکعت کے لیے کھڑا ہوتا ہے" "كشاف القناع" (1/480)
جبکہ جمہور علمائے کرام قیام اللیل بھی چار، چار رکعت ادا کرنے کے جواز کے قائل ہیں، تو انہوں نے اس حدیث کو استحباب پر محمول کیا اور کہا کہ افضل یہی ہے کہ دو، دو رکعت ادا کی جائیں، یا یہ کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے آسان اور با سہولت عمل کی جانب رہنمائی فرمائی ہے کہ نمازی کے لئے یہ طریقہ آسان ہے۔ یہ بات حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے فتح الباری میں بیان کی ہے۔
شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ سے پوچھا گیا:
"اگر امام تراویح میں تین رکعات پڑھا دے تو کیا کرے؟"
تو انہوں نے جواب دیا:
"اگر تیسری رکعت کے لئے بھول کر کھڑا ہو جائے تو واپس بیٹھ جائے، چاہے اس نے سورت فاتحہ پڑھ لی ہو، تب بھی بیٹھ جائے، تشہد پڑھے اور سلام پھیرے ، پھر دو سجدے سہو کے کرے؛ کیونکہ امام احمد نے صراحت کے ساتھ لکھا ہے کہ انسان جب رات کی نماز میں تیسری رکعت کے لئے کھڑا ہو جائے تو وہ ایسے ہی ہے جیسے فجر کی نماز میں تیسری رکعت کے لئے کھڑا ہو گیا ، اور یہ بات سب کو معلوم ہے کہ جب کوئی انسان نماز فجر میں تیسری رکعت کے لئے کھڑا ہو جائے تو اس پر واپس بیٹھنا واجب ہے؛ کیونکہ فجر کی نماز تین رکعت ادا ہی نہیں ہو سکتی، تو اسی طرح رات کی نماز بھی دو رکعت سے زیادہ نہیں ہو سکتی؛ کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان ہے: (رات کی نماز دو، دو رکعت ہے) ۔ میں نے کچھ ائمہ کے بارے میں سنا ہے کہ امام جب تراویح کی نماز میں بھول کر تیسری رکعت کے لئے کھڑا ہو جائے اور مقتدی اسے یاد کروائیں تو وہ اپنی نماز جاری رکھتا ہے، اور 4 رکعات پڑھا دیتا ہے، تو یہ در حقیقت ان کی جہالت کی علامت ہے، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے اس فرمان سے بھی متصادم ہے کہ : (رات کی نماز دو، دو رکعت ہے) تو جب انسان کو نماز تراویح یا قیام اللیل میں یاد کروایا جائے چاہے وہ قراءت بھی شروع کر چکا ہو تو ضروری ہے کہ واپس بیٹھے، تشہد پڑھے اور سلام پھیر دے، پھر سلام کے بعد دو سجدے سہو کے لئے کرے اور پھر دوبارہ سلام پھیرے" ختم شد
"جلسات رمضانية"
اس بنا پر اس امام کو یہ چاہیے تھا کہ جب اسے یاد آیا کہ یہ تیسری رکعت ہے تو وہ بیٹھ جاتا، اور پھر نماز کے آخر میں سجدہ سہو کرتا۔
اور چونکہ اس امام نے جو کیا کہ بھول کر تیسری رکعت کے لئے کھڑے ہو جانے پر اپنی نماز کو چار رکعت بنا لیا؛ یہ بعض علمائے کرام کے ہاں جائز ہے۔
شافعی فقہائے کرام نے ذکر کیا ہے کہ جو شخص تیسری رکعت کے لئے بھول کر کھڑا ہو جائے تو وہ بیٹھ جائے اور پھر سجدہ سہو کرے۔
اور اگر تیسری رکعت میں کھڑا ہونے کے بعد اضافے کی نیت کر لے تو پھر شافعی فقہائے کرام کے ہاں صحیح ترین موقف یہ ہے کہ وہ پھر بھی بیٹھے اور پھر تیسری کے لئے کھڑا ہو، تا کہ نماز میں اضافہ کرنے سے قبل اس کی نیت کر چکا ہو۔ جبکہ کچھ شافعی فقہائے کرام نے اس چیز کی اجازت دی ہے کہ تیسری رکعت میں کھڑے ہو کر بھی اس کی نیت کی جاسکتی ہے، اس کے لئے بیٹھنا ضروری نہیں ہے۔
مزید کے لئے دیکھیں: "تحفة المحتاج" (1/271)
اس لیے اس امام نے جو کیا ہے اس کی بعض علمائے کرام کے ہاں گنجائش موجود ہے۔ اور امام جب کوئی ایسا عمل کرے جس کی بعض علمائے کرام کے ہاں گنجائش ہو، چاہے یہ عمل اجتہاد کی بنا پر کرے یا کسی کی تقلید کرتے ہوئے کرے ، یا اس کا گمان یہ ہو کہ جو وہ کر رہا ہے وہی صحیح ہے، تو اس کی نماز صحیح ہے، مقتدی کے لئے امام کی اقتدا کرنا لازمی ہو گا۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اگر امام نماز میں ایسا کام کرتا ہے جو مقتدی کے ہاں تو حرام ہے لیکن امام اسے حرام نہیں سمجھتا ، اور اس کام کا تعلق بھی ایسے امور سے ہو جس میں اجتہاد کی گنجائش ہو تو اس کے پیچھے مقتدی کی نماز صحیح ہو گی، یہ امام احمد کا مشہور موقف ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ: امام احمد سے منقول اقوال [امام اور مقتدی کے درمیان ] اختلاف پیدا کرنے کے موجب نہیں ہیں، ان کا ظاہری مفہوم یہ ہے کہ ہر وہ مقام جس کے بارے میں مخالف موقف رکھنے والے پر غلطی کا قطعی حکم لگایا جا سکتا ہے تو اسی کو دوبارہ بجا لانا واجب ہو گا، اور جس مقام کے بارے میں مخالف موقف رکھنے والے پر غلطی کا قطعی حکم نہیں لگایا جا سکتا ہے تو اس کو دوبارہ بجا لانا واجب نہیں ہو گا ، اسی بات کی رہنمائی احادیث، آثار سلف اور قیاس الاصول کرتے ہیں، تاہم اس مسئلے میں علمائے کرام کے ہاں اختلاف مشہور ہے۔" ختم شد
"الاختيارات" (ص 70)
اس بنا پر امام کی نماز صحیح ہے اور آپ کی نماز اس امام کے پیچھے بھی صحیح ہے۔
اور اگر یہ موقف مانا جائے کہ اس مسئلے میں رکعت کے اضافے کی گنجائش نہیں ہے، پھر کوئی مقتدی اس امام کی اقتدا یہ سمجھتے ہوئے کرتا ہےکہ امام ایسا اضافہ کر سکتا ہے، یا اسے امام کی جانب سے اضافے کی صورت میں امام کی اقتدا کی حرمت کا علم نہ ہو، یا وہ مقتدی بھی بھول چکا ہو تو ان تمام صورتوں میں اس کی نماز بھی صحیح ہے۔
واللہ اعلم