جمعہ 21 جمادی اولی 1446 - 22 نومبر 2024
اردو

والدین کے علاج کا خرچہ زکاۃ سے کرنا

141828

تاریخ اشاعت : 11-03-2016

مشاہدات : 2613

سوال

سوال: میرے امی ابو ہندوستان سے امریکہ وزٹ کیلئے آرہے ہیں، تو کیا انکی طبی دیکھ بھال کیلئے آنے والے خرچے کو زکاۃ میں شمار کر سکتا ہوں؟ کیونکہ ان میں سے ایک کو ہسپتال داخل کروانا ضروری ہوچکا ہے۔

جواب کا متن

الحمد للہ.

اولاد بیٹا ہو یا بیٹی  اگر صاحب استطاعت ہیں تو انہیں اپنے والدین کی کفالت کرنی چاہیے، اور اس کفالت میں علاج معالجہ  بھی شامل ہے۔

کتاب و سنت میں ایسے دلائل موجود ہیں جن سے ان کی کفالت اور خرچے کی ذمہ داری اولاد پر عائد ہوتی ہے، چنانچہ فرمانِ باری تعالی ہے:
( وَقَضَى رَبُّكَ أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا )
ترجمہ: اور تیرے رب نے فیصلہ کر دیا ہے کہ تم صرف اسی کی عبادت کرو، اور والدین کیساتھ حسن سلوک سے پیش آؤ۔ [الإسراء:23]

اور حسن سلوک میں ان کی کفالت، اور ضروریات پوری کرنا بھی شامل ہے۔

اسی طرح عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (انسان کیلئے سب سے اچھی روزی اس کی کمائی کی روزی ہے، اور اولاد بھی انسان کی کمائی ہے) ابو داود: (3528)  البانی رحمہ اللہ نے اسے ابو داود میں صحیح کہا ہے۔

جبکہ ابن منذر رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"تمام اہل علم کا اس بات پر اجماع ہے کہ غریب والدین  جن کا ذریعہ معاش کوئی نہیں ہے، اور نہ ہی کوئی مال ہے، ان کی کفالت اور نفقہ اولاد کے مال میں واجب ہے" انتہی

چنانچہ اگر والدین کا خرچہ آپ کے ذمہ واجب ہے تو اسے زکاۃ میں شمار کرنا جائز نہیں ہوگا۔

چنانچہ اس بارے میں ابن قدامہ رحمہ اللہ "المغنی" (2/269) میں کہتے ہیں:
"فرض زکاۃ میں سے والدین، اور اولاد کو نہیں دیا جا سکتا، ابن منذر  کہتے ہیں کہ: اہل علم کا اس بارے میں اجماع ہے کہ اولاد والدین کو ایسی صورت میں زکاۃ نہیں دے سکتی جب اولاد پر والدین کا خرچہ واجب ہوتا ہو، کیونکہ اگر اولاد والدین کو زکاۃ دے گی تو اس طرح اولاد کو والدین پر خرچ کرنے کی ضرورت نہیں پڑے گی، گویا کہ انہوں نے زکاۃ دے کر اپنے ذمہ واجب خرچہ کو بچا لیا ہے، یا دوسرے لفظوں میں زکاۃ خود ہی رکھ لی ہے۔

اسی طرح اپنی اولاد کو بھی زکاۃ نہیں دے سکتے، امام احمد رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ: "کوئی شخص اپنے والدین ، اولاد، پوتے ، دادا، دادی، اور نواسے کو اپنی زکاۃ نہ دے" کچھ اختصار کیساتھ اقتباس مکمل ہوا

یہاں سے کچھ اہل علم کے ہاں دو صورتوں کو مستثنی کیا جائے گا:

1- اصل یا فرع پر قرض ہو، تو ایسی صورت میں ان کے قرض کی ادائیگی کیلئے زکاۃ دی جا سکتی ہے؛ کیونکہ اولاد کا قرضہ والد کے یا والد کا قرضہ اولاد کے ذمہ واجب الادا نہیں ہے۔

2- زکاۃ دینے والے کے پاس اتنا  مال نہیں ہے کہ اصل یا فرع کا خرچہ برداشت کر سکے، ایسی صورت میں زکاۃ دینے والے پر اصل یا فرع کا خرچہ واجب نہیں ہوگا، تو اس صورت میں وہ زکاۃ دے سکتا ہے۔

چنانچہ اس بارے میں شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کا موقف "الاختيارات" (ص 104)میں ہے کہ:
"والدین اور آباؤ اجداد  کو اسی طرح اپنی نسل یعنی پوتے پوتیوں کو زکاۃ دینا جائز ہے، بشرطیکہ یہ لوگ زکاۃ کے مستحق ہوں اور زکاۃ دینے والے کے پاس اتنا مال نہ ہو جس سے ان کا خرچہ برداشت کر سکے، یا ان میں سے کوئی مقروض ہو یا ،مکاتب ہو یا مسافر ہو تب بھی ان پر خرچ کر سکتا ہے، اسی طرح اگر ماں غریب ہو، اور اس کے بچوں کے پاس مال ہو، تو ماں کو بچوں کے مال کی زکاۃ دی جا سکتی ہے" اختصار کیساتھ اقتباس مکمل ہوا

اس بنا پر اگر آپ کے والدین غریب ہیں، اور اس سے پہلے علاج کیلئے قرض اٹھا چکے ہیں تو اس قرض کو زکاۃ سے آپ ادا کر سکتے ہیں۔

اسی طرح اگر غربت اتنی ہے کہ علاج کا خرچہ برداشت نہیں کر سکتے ،اور آپ کے پاس بھی اتنی استطاعت نہیں ہے کہ ان کا خرچہ برداشت کر سکیں، تو آپ انہیں زکاۃ دے سکتے ہیں۔

واللہ اعلم.

ماخذ: الاسلام سوال و جواب