سوموار 22 جمادی ثانیہ 1446 - 23 دسمبر 2024
اردو

کامرس اور اکنامکس میں غیر شرعی چیزیں بھی ہوتی ہیں پھر بھی انہیں پڑھنے کا حکم

سوال

کامرس سے متعلقہ مضامین جیسے اکاؤنٹنگ، بزنس اسٹڈیز اور اکنامکس وغیرہ سے متعلق پیشہ ورانہ قابلیت بڑھانے کے لیے دیگر ایسے ہی مضامین پڑھانے اور پڑھنے کا کیا حکم ہے؟ واضح رہے کہ ان کے نصاب میں ایسے عناصر لازم ہوتے ہیں جو اسلام میں جائز نہیں، مثلاً: سود اور سود پر مبنی لین دین، انشورنس، انگریزی قانون اور ٹیکس وغیرہ۔ طلبہ کو امتحانات اور اس شعبے کی ڈگری حاصل کرنے کے لیے انہیں پاس کرنا ضروری ہوتا ہے۔

جواب کا متن

الحمد للہ.

اکنامکس اور کامرس پڑھنے میں کوئی حرج نہیں ہے اگرچہ ان میں سود اور ٹیکس سے متعلق چیزیں پائی جاتی ہیں بشرطیکہ مدرس اور شاگرد دونوں کو علم ہو کہ یہ اللہ تعالی کی طرف سے حرام ہیں، انہیں پڑھنے کا مقصد یہ ہو کہ ان میں پائی جانے والی خرابیوں اور غلط چیزوں کو جانیں، یا ان میں پائی جانے والی ایسی چیزوں سے فائدہ اٹھائیں جو شریعت کے مخالف نہیں ہیں؛ کیونکہ تمام کمپنیوں اور تجارتی اداروں کو ان علوم کی ضرورت ہوتی ہے، وہ ان سے فائدہ بھی اٹھاتی ہیں۔ یہی معاملہ وضعی قوانین پڑھنے کا ہے کہ انہیں اس نیت سے پڑھا جائے کہ ان قوانین میں پائے جانے والے سقم سے آشنا ہوں اور ان سے بچیں، یا ان قوانین میں پائے جانے والے ایسے امور سے استفادہ کریں جو شریعت سے متصادم نہیں ہیں لیکن جو باطل امور ہیں ان سے بچیں۔

شیخ ابن باز رحمہ اللہ سے وضعی قوانین پڑھنے کے متعلق پوچھا گیا تو انہوں نے جواب دیا:
"وضعی قوانین پڑھنے اور پڑھانے والے متعدد اقسام کے ہیں:
پہلی قسم: ایسے پڑھنے اور پڑھانے والے لوگ جو ان قوانین کی حقیقت سے آشنا ہونا چاہتے ہیں، یا شرعی احکامات کی ان قوانین پر برتری جاننا چاہتے ہیں، یا ان قوانین میں موجود ایسی چیزوں سے استفادہ کرنا چاہتے ہیں جو شریعت سے متصادم نہیں ہیں، یا اس حوالے سے کسی دوسرے کی رہنمائی کرنا چاہتے ہیں تو ان تمام صورتوں میں شرعی طور پر کوئی حرج نہیں ہے، بلکہ ممکن ہے کہ ایسے شخص کو اجر بھی ملے اور اس عمل پر اس کی قدر بھی کی جائے کہ وہ ان وضعی قوانین کی خامیاں واضح کر رہا ہے اور شرعی احکامات کی ان پر برتری واضح کر رہا ہے۔ تو ایسے شخص کا حکم ان طلبہ جیسا ہے جو احکامِ سود، شراب کی اقسام، یا جوے وغیرہ کی اقسام یا غلط عقائد اور نظریات پڑھتا ہے، یا ان چیزوں کو پڑھانے کی ذمہ داری اس لیے نبھاتا ہے کہ لوگوں کو ان کی خامیاں معلوم ہوں اور اس کے متعلق اللہ کا حکم جان سکیں، اور دوسروں کو اس حوالے سے آگہی دیں، اور ان کے حرام ہونے کا ایمان بھی ایسے ہی رکھے جیسے سابقہ قسم کی حرمت کے بارے میں اس کا ایمان ہے ، نیز یہ بھی ایمان رکھے کہ شریعت سے متصادم وضعی قوانین کے مطابق فیصلے کرنا بھی حرام ہے۔ یہاں یہ بھی واضح رہے کہ وضعی قوانین کی حرمت جادو سیکھنے اور سکھانے جیسی نہیں ہے؛ کیونکہ جادو بذات خود حرام ہے؛ کیونکہ جادو میں شرک اور جنوں کی عبادت شامل ہوتی ہے، جادو سیکھنے یا سکھانے کا عمل شرک اور جنوں کی عبادت کے بغیر ممکن ہی نہیں ہے۔ جبکہ یہاں صورت مسئلہ وضعی قوانین پڑھنے یا پڑھانے والا شخص ان کے مطابق فیصلہ نہیں کر رہا، نہ ہی انہیں جائز سمجھتا ہے، بلکہ وضعی قوانین کی درس و تدریس جائز یا شرعی غرض اور مقصد سے ہے جیسے کہ اس کی وضاحت پہلے گزر چکی ہے۔۔۔" ختم شد
"مجموع فتاوی شیخ ابن باز" (2 / 231)
آپ رحمہ اللہ کی گفتگو کا بقیہ حصہ آپ سوال نمبر: (12874) کے جواب میں پڑھ سکتے ہیں۔

مذکورہ موضوعات کو پڑھنے والے کے لیے شرط یہ ہے کہ شرعی احکامات کے متعلق اسے بھر پور بصیرت حاصل ہو کہ باطل باتیں اس پر اثر پذیر نہ ہو سکیں، اور جو شبہات اس کے سامنے آئیں ان سے متاثر نہ ہو، اور اگر کوئی چیز اسے سمجھ میں نہ آئے تو فوری اہل علم سے رابطہ کر کے وضاحت طلب کرے تا کہ حق و باطل کے درمیان تفریق کر سکے اور صحیح و غلط میں امتیاز کر سکے۔

دائمی فتوی کمیٹی کے فتاوی: (14 / 232)میں ہے:
"وضعی قوانین اگر شریعت سے متصادم ہوں تو ان کے مطابق فیصلے کرنے کے لیے انہیں پڑھنا درست نہیں ہے، البتہ انہیں اس نیت سے پڑھنا کہ ان میں موجود خلل واضح ہو، یہ بیان ہو کہ یہ قوانین کس قدر حق سے منحرف ہیں جبکہ دوسری جانب اسلامی قوانین میں عدل، پائیداری اور معاشرے کی بہبود پائی جاتی ہے، انسانیت کے تمام مفادات اسلامی قوانین کے تحت پورے ہو سکتے ہیں۔
لیکن اگر کسی مسلمان میں حق و باطل کے درمیان تفریق کرنے کی صلاحیت نہیں ہے تو وہ فلسفہ اور وضعی قوانین جیسے امور نہ پڑھے کیونکہ خدشہ ہے کہ یہ شخص صراط مستقیم سے ہٹ جائے گا۔ جبکہ جس شخص میں یہ صلاحیت ہے کہ ان قوانین کا تجزیہ کر سکتا ہے اور کتاب و سنت کو سمجھنے کے بعد انہیں پڑھ کر ان میں موجود اچھی اور بری چیزیں واضح کر سکتا ہے، حق کو ثابت اور باطل کو غلط قرار دے سکتا ہے تو اسے ان علوم کو پڑھنے کی اجازت ہے۔ بشرطیکہ وہ اس سے زیادہ ضروری شرعی امور سے غافل نہ ہو۔
تو اس سے یہ معلوم ہوا کہ ان موضوعات کو تعلیمی اداروں میں عام نہ کیا جائے، بلکہ یہ صرف ایسے مخصوص طلبہ کے لیے ہوں جو اس قابل ہوں کہ حق و باطل سے متعلق اسلامی ذمہ داری کو اچھے طریقے سے نبھا سکیں۔" ختم شد

واللہ اعلم

ماخذ: الاسلام سوال و جواب