سوموار 22 جمادی ثانیہ 1446 - 23 دسمبر 2024
اردو

نصارى كے ساتھ تعزيت كرنا

14229

تاریخ اشاعت : 08-08-2005

مشاہدات : 5259

سوال

كيا نصارى كے ساتھ تعزيت كرنا جائز ہے، اور واجبى حالت ميں كس طرح ہو گى ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

جى ہاں وفات كے وقت ان كے ساتھ تعزيت كرنا اور بيمارى كى حالت ميں ان كى بيمارى پرسى كرنا، اور مصيبت كے وقت ان كے ساتھ ہمدردى كرنا جائز ہے.

انس رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ: ايك يہودى بچہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى خدمت كيا كرتا تھا، تو وہ بيمار ہو گيا، اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم اس كى عيادت كے ليے تشريف لےگئے تو اس كے سرہانے بيٹھ كر اسے فرمانے لگے:

" اسلام قبول كر لو"

وہ بچہ اپنے والد كى طرف ديكھنے لگا جو اس كے پاس كھڑا تھا، تو اس كا باپ كہنے لگا: ابو القاسم صلى اللہ عليہ وسلم كى بات تسليم كرلو، تو وہ بچہ مسلمان ہو گيا، اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم وہاں سے نكلے تو آپ يہ فرما رہے تھے:

" اس اللہ تعالى كا شكر ہے جس نے اسے آگ سے بچا ليا"

صحيح بخارى حديث نمبر ( 1356 ).

اور انس رضى اللہ تعالى عنہ سے ہى روايت ہے وہ بيان كرتے ہيں كہ ايك يہودى نے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كو جو كى روٹى اور ذائقہ بدلے ہوئے گھى كى دعوت دى تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے قبول فرمالى"

مسند احمد حديث نمبر ( 13201 ) صحيح سند كے ساتھ روايت كي ہے

اور مسلمان كو يہ تنبيہ كى جاتى ہے كہ جب وہ ايسا كرے تو اس ميں انہيں اسلام كى دعوت دينے كى نيت كرنى چاہيے، اور اسلام پر ان كى تاليف قلب كرے، اور انہيں مناسب وقت ميں مناسب طريقہ سے اسلام كى دعوت دے.

اور يہ بھى تنبيہ كى جاتى ہے كہ: تعزيت كى حالت ميں اسے ان كى ميت كى مغفرت اور رحمت يا جنت كى دعا نہيں كرنى چاہيے، كيونكہ اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:

نبى صلى اللہ عليہ وسلم اور مومنوں كے لائق نہيں كہ وہ مشركوں كے ليے دعائے استغفار كريں، اگرچہ وہ ان كے قريبى رشتہ دار ہى كيوں نہ ہوں.

بلكہ ان كے ليے وہ دعا كرے جو ان كى حالت كے مناسب ہو، اور انہيں صبر كرنے كى تلقين كرے، اور انہيں تسلى و تشفى دے، اور انہيں ياد دلائے كہ مخلوقات ميں يہ اللہ تعالى كى سنت اور طريقہ ہے .

ماخذ: الشيخ ڈاكٹر عبد الوھاب الطريرى