الحمد للہ.
مسلمان شخص كے ليے ضرورى ہے كہ وہ اللہ تعالى كى عبادت اس طرح كرے جس طرح مشروع ہے، اور عبادات توقيفى ہوتى ہيں، يعنى ان ميں تغير و تبدل نہيں ہو سكتا، اس ليے كسى بھى قسم كى كوئى عبادت بغير دليل نہيں كى جاسكتى، اور جو كوئى شخص بھى كسى ايسى چيز پر عمل كرے گا تو اللہ تعالى اور اس كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم نے ہميں نہيں بتائى تو اس نے اللہ تعالى كے دين ميں ايك نئى چيز ايجاد كى جسے بدعت كے نام سے پہچانا جاتا ہے، اور اس كا وہ عمل مردود ہو گا، كيونكہ كسى بھى عمل كے قبول ہونے كى شرطيں ہيں جب تك يہ دونوں شرطيں عمل ميں نہ ہو وہ اللہ تعالى كے ہاں قابل قبول نہيں:
پہلى شرط:
اخلاص: يعنى وہ عمل اللہ تعالى كے ليے خالص ہو.
اللہ سبحانہ وتعالى كا فرمان ہے:
اور انہيں تو صرف يہى حكم ديا گيا ہے كہ وہ خالصتا اللہ تعالى كى عبادت كريں، اور اسى كے دين كو خالص ركھيں البينۃ.
دوسرى شرط:
نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى پيروى اور متابعت:
يعنى وہ كام نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے طريقہ كے مطابق ہو:
اللہ تعالى كا فرمان ہے:
اور رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم تمہيں جو كچھ ديں اسے لے ليا كرو اور جس چيز سے منع كريں اس سے رك جايا كرو الحشر.
چنانچہ عبادات ميں كوئى بھى نئى چيز ايجاد كرنا جائز نہيں جسے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے بيان نہ كيا ہو، كيونكہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" جس نے بھى كوئى ايسا عمل كيا جس پر ہمارا حكم نہيں تو وہ كام مردود ہے "
صحيح بخارى حديث نمبر ( 2697 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 1718)
امام ترمذى نے امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ سے عرباس بن ساريہ رضى اللہ تعالى عنہ كى حديث بيان كى ہے، اس ميں ہے كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" تم ميرى سنت كو لازم پكڑو، اور خلفاء مھديين كے طريقہ كو، اسے مضبوطى كے ساتھ پكڑو، اور نئے نئے امور سے اجتناب كرو، كيونكہ ہر نئى چيز بدعت ہے، اور ہر بدعت گمراہى ہے "
سنن ترمذى كتاب السنۃ حديث نمبر ( 3991 ) علامہ البانى رحمہ اللہ تعالى نے صحيح سنن ابو داود حديث نمبر ( 3851 ) ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.
اس ليے مسلمان شخص كو چاہيے كہ وہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى لائى ہوئى شريعت سے تجاوز مت كرے، اور وہى كام كرے جو مشروع ہيں.
صحابہ كرام رضوان اللہ عليہم اجمعين نے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے وضوء كا طريقہ بيان كيا ہے، اور كسى ايك صحابى سے بھى يہ منقول نہيں اس ليے جو طريقہ نبى عليہ السلام كا ہے اسى پر عمل كرنا واجب ہے.
شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ تعالى نيت كے الفاظ زبان سے ادا كرنے كا مسئلہ بيان كرتے ہوئے كہتے ہيں:
" نيت كے الفاظ زبان سے ادا كرنے مستحب نہيں، كيونكہ يہ بدعت ہے نہ تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے ايسا منقول ہے، اور نہ ہى كسى ايك صحابى سے، اور نہ ہى نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اپنے كسى امتى كو نيت زبان سے كرنے كا حكم ديا، اور نہ ہى كسى مسلمان شخص كو اس كى تعليم دى، اگر يہ مشہور اور مشروع چيز ہوتى تو نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم اور صحابہ كرام اس ميں اہمال سے كام نہ ليتے، باوجود اس كے كہ امت اس ميں ہر دن اور رات مبتلا ہے، بلكہ زبان سے نيت كى ادائيگى تو ناقص عقل اور ناقص دين كى نشانى ہے.
ديكھيں: مجموع الفتاوى ابن تيميہ ( 22 / 231 ).
اور دوسرے مقام پر اس طرح كہتے ہيں:
لوگوں نے جتنى قسم كى بھى نيت زبان سے كرنا ايجاد كر ليا ہے تكبير تحريمہ اور تلبيہ سے قبل، اور وضوء و طہارت كرتے وقت، اور باقى سب عبادات ميں زبان كے ليے نيت كرنى بدعت ہے، رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اسے مشروع نہيں كيا، اور مشروع عبادات ميں جو كچھ بھى زيادہ نئى ايجاد كى جائے جسے رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے مشروع نہيں كيا وہ بدعت ہے، بلكہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم عبادات ترك كرنے پر مدامت كرتے تھے، تو انہيں بجا لانا اور اس كى مداومت كرنا بدعت و گمراہى ہے.
ديكھيں: مجموع الفتاوى ابن تيميہ ( 22 / 223 ).
وضوء سے قبل اور بعد ميں پڑھى جانے والى دعائيں معلوم كرنے كے ليے آپ سوال نمبر ( 2165 ) كے جواب كا مطالعہ كريں.
چنانچہ مسلمان شخص كو وہ كام نہيں كرنا چاہيے جو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے نہيں كيا، اور نہ ہى اس كا حكم ديا ہے، اور دين ميں نئى نئى ايجادات كرنے سے اجتناب كرنا چاہيے، كيونكہ دين ميں بدعات كى ايجاد اہل كتاب سے مشابہت ہے، مسلمان كو اپنے دين كى تعليمات حاصل كرنى چاہييں تا كہ وہ بدعات ميں نہ پڑ جائے.
واللہ اعلم .