الحمد للہ.
عورت اپنے محرم رشتہ داروں اور خواتین کے سامنے بالوں کو کھولے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے، اور چاہے اکیلی بھی ہو تو تب بھی کوئی حرج نہیں، یہ بات تو اہل علم کے ہاں متفقہ طور پر مسلمہ ہے، مسلمان خواتین رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے زمانے سے لے کر اب تک اس پر عمل پیرا ہیں۔
یہ دعوی کرنا کہ عورت اگر اپنے بالوں کو گھر میں کھولتی ہے تو شیطان اس کے بالوں سے کھیلتا ہے، تو یہ جھوٹا دعوی ہے، اس کی کوئی دلیل نہیں ہے، حدیث یا اقوال سلف میں اس کا کہیں ذکر نہیں ہے، اس لیے یہ دعوی کرنا جائز نہیں ہے، نہ ہی ایسی بات کو لوگوں کے درمیان بیان کرنا جائز ہے؛ کیونکہ فرمانِ باری تعالی ہے:
وَلَا تَقْفُ مَا لَيْسَ لَكَ بِهِ عِلْمٌ إِنَّ السَّمْعَ وَالْبَصَرَ وَالْفُؤَادَ كُلُّ أُولَئِكَ كَانَ عَنْهُ مَسْئُولًا
ترجمہ: ایسی بات کے پیچھے مت لگ جس کے متعلق تجھے علم نہیں ہے؛ یقیناً سماعت، بصارت، اور دل ان تمام چیزوں کے بارے میں پوچھا جائے گا۔[الإسراء:36]
شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ سے درج ذیل سوال پوچھا گیا:
"جب کوئی مؤذن نماز کے لیے اذان دے، اور کسی عورت کے بال اپنے ذاتی گھر میں یا اہل خانہ کے ساتھ، یا پڑوسیوں کے گھر میں ہوتے ہوئے کھلے ہوں، وہاں پر اسے محرم مردوں اور خواتین کے علاوہ کوئی اور نہ دیکھ رہا ہو تو کیا یہ حرام عمل ہے؟ اور جب تک اذان ہوتی رہے گی اس وقت تک فرشتے اس پر لعنت کرتے رہیں گے؟
تو انہوں نے جواب دیا:
یہ بات صحیح نہیں ہے، چنانچہ اگر عورت کو کوئی اجنبی نہ دیکھ رہا ہو تو اسے بال کھولے رکھنے کی اجازت ہے چاہے مؤذن اذان دے رہا ہو ، تاہم عورت جب نماز ادا کرے گی تو پھر اپنے چہرے کے علاوہ مکمل جسم کو ڈھانپے گی، نماز کی حالت میں متعدد اہل علم نے اپنی ہتھیلیوں اور قدموں کو بھی کھلا رکھنے کی اجازت دی ہے، لیکن احتیاط اسی میں ہے کہ انہیں بھی ڈھانپ لے، صرف چہرہ کھلا رکھنے کی اجازت ہے۔ یہ اس صورت میں ہے جب اس کے آس پاس اجنبی لوگ نہ ہوں، چنانچہ اگر اجنبی لوگ موجود ہوں گے تو اس پر چہرہ بھی ڈھانپ کر رکھنا لازمی ہے؛ کیونکہ اجنبی لوگوں کے سامنے چہرہ کھولنا جائز نہیں، صرف خاوند اور محرم مردوں کے سامنے جائز ہے۔" ختم شد
" مجموع فتاوی و رسائل ابن عثیمین" (12/202)
واللہ اعلم