جمعہ 21 جمادی اولی 1446 - 22 نومبر 2024
اردو

عرفات ميں وقوف كا وقت دس ذوالحجہ كى فجر تك ہے

سوال

ميں سعودى عرب ميں رہتا ہوں، ان شاء اللہ اس برس حج پر جانے كا ارادہ ہے، ليكن ميرى ملازمت كا معاملہ ايسا ہے كہ ميرى فلائٹ نو ذوالحجہ كو صبح دس بجے ہے تو كيا اگر ميں سيدھا ميدان عرفات جا كر باقى حج كے مناسك پورے كروں تو كيا ميرا حج صحيح ہوگا كيونكہ وقوف عرفات سے پہلے منى كے مناسك ادا نہيں كرسكوں گا.
اور اگر ميرى فلائٹ ليٹ ہو جائے اور ميں مغرب كے بعد ميدان عرفات پہنچوں تو ميرا حج ضائع ہو جائيگا، ميرا يہ فرضى حج ہے، مجھے يہ بتائيں كہ مجھے ميدان عرفات ميں كب پہنچنا چاہيے تا كہ ميرا حج صحيح رہے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

نو ذوالحجہ كو حج كا احرام باندھنے ميں كوئى حرج نہيں احرام باندھ كر سيدھے ميدان عرفات چلے جائيں تو آپ كا حج صحيح ہے، ليكن شرط يہ ہے كہ آپ نو ذوالحجہ والے دن ظہر سے ليكر دس ذوالحجہ كى فجر تك كے دوران ميدان عرفات ميں گئے ہوں، كيونكہ يہ سارا وقت وقوف عرفہ كا وقت ہے.

اس كى دليل سنن نسائى اور ترمذى اور سنن ابو داود اور سنن ابن ماجہ كى درج ذيل حديث ہے:

عروہ بن مضرس الطائى رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں ميں رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے پاس اس وقت مزدلفہ ميں آيا كہ آپ نماز فجر كے ليے جا رہے تھے تو ميں نے عرض كيا:

اے اللہ تعالى كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم ميں جبل طئ كے علاقے سے آيا ہوں اور ميں نے اپنى سوارى كو بھى تھكايا اور خود بھى تھكا ہوں، اللہ كى قسم ميں نے كوئى ريت كا ٹيلا نہيں چھوڑا مگر اس پر وقوف كيا ہے تو كيا ميرا حج ہوا ہے يا نہيں ؟

چنانچہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا: جس شخص نے بھى ہمارے ساتھ يہ نماز ( فجر ) ادا كى اور وہ ہمارے ساتھ ٹھرا رہا حتى كہ ہم يہاں سے روانہ ہو گئے، اور اس سے قبل اس نے رات يا دن كے وقت ميدان عرفات ميں وقوف بھى كر ليا ہو تو اس نے اپنا حج پورا كر ليا اور اپنى عبادت پورى كر لى "

سنن ترمذى حديث نمبر ( 891 ) سنن نسائى حديث نمبر ( 3039 ) سنن ابو داود حديث نمبر ( 1950 ) سنن ابن ماجہ حديث نمبر ( 3016 ) امام ترمذى رحمہ اللہ كہتے ہيں يہ حديث حسن صحيح ہے.

قولہ: تفثہ كا معنى نسكہ ہے يعنى اس نے اپنى عبادت مكمل كر لى.

اور قولہ: " ميں نے كوئى ريت كا ٹيلا نہيں چھوڑ مگر اس پر وقوف كيا ہے "

اگر ريت كا ٹيلہ ہو تو اسے حبل كہتے ہيں، اور اگر وہ پتھروں كا ہو تو اسے جبل كہا جاتا ہے.

كئى علماء كرام نے اس پر اتفاق بيان كيا ہے كہ يوم نحر كى فجر تك وقوف عرفہ كا وقت ہے.

امام نووى رحمہ اللہ كہتے ہيں:

وقوف عرفہ كا وقت يوم عرفہ كے دن زوال سے شروع ہو كر يوم النحر كى طلوع فجر تك ہے، امام مالك اور ابو حنيفہ اور جمہور علماء كرام كا مسلك يہى ہے.

قاضى ابو طيب اور عبدرى رحمہ اللہ كہتے ہيں: امام احمد رحمہ اللہ كے علاوہ سب علماء كا يہى قول ہے، امام احمد رحمہ اللہ كہتے ہيں: وقوف عرفہ كا وقت يوم عرفہ كى طلوع فجر سے ليكر يوم نحر كى طلوع فجر تك ہے " انتہى

ديكھيں: المجموع ( 8 / 141 ).

اور ابن قدامہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:

ہمارے علم كے مطابق تو وقوف عرفہ كا وقت يوم نحر كى طلوع فجر تك ہے اس ميں اہل علم كا كوئى اختلاف نہيں جابر رضى اللہ تعالى عنہ كہتے ہيں:

" مزدلفہ كى رات طلوع فجر تك ( وقوف عرفہ ) سے حج فوت نہيں ہوتا.

ابو زبير رحمہ اللہ كہتے ہيں: ميں نے عرض كيا: كيا رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے يہى فرمايا ہے ؟

تو جابر رضى اللہ تعالى عنہ كہنے لگے: جى ہاں "

اسے اثرم نے روايت كيا ہے.

رہا وقوف عرفہ كا ابتدائى وقت تو يہ يوم عرفہ كى طلوع فجر سے شروع ہوتا ہے، اس ليے جس نے بھى اس ميں سے كوئى تھوڑا سا وقت بھى پا ليا اور وہ عاقل بھى ہو تو اس نے اپنا حج مكمل كر ليا.

امام مالك اور امام شافعى رحمہ اللہ كہتے ہيں:

اول وقت يوم عرفہ كے زوال سے شروع ہوتا ہے....

جو شخص كسى بھى طرح عرفہ ميں وقوف كر لے اور وہ عاقل ہو چاہے وقوف كھڑے ہو كر كيا ہو يا بيٹھ كر يا سوارى پر يا پھر سو كر، اور چاہے وہ عرفات كو كراس كرتا ہو گزرے اور اسے يہ علم بھى نہ ہو كہ يہ عرفات ہے تو بھى كافى ہوگا امام مالك اور امام شافعى اور امام ابو حنيفہ رحمہ اللہ كا يہى كہنا ہے " انتہى

ديكھيں: المغنى ( 3 / 211 ).

مزيد فائدہ كے ليے آپ سوال نمبر ( 106581 ) كے جواب كا مطالعہ ضرور كريں.

اس بنا پر جب حاجى يوم نحر يعنى دس ذوالحجہ كى طلوع فجر سے قبل ميدان عرفات ميں پہنچ جائے تو اس نے حج پا ليا، اسے حج كے باقى مناسك اور اعمال بھى مكمل كرنا ہونگے.

اللہ سبحانہ و تعالى سے دعا ہے كہ وہ آپ كى سعى قبول فرمائے.

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب