الحمد للہ.
اول:
امام اور منفرد کے لیے اپنے سامنے سترہ رکھنا مستحب ہے؛ کیونکہ سنن ابو داود: (589) میں ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (جب تم میں سے کوئی نماز پڑھنے لگے تو سترے کی طرف رخ کر کے نماز ادا کرے اور سترے کے قریب کھڑا ہو) علامہ البانیؒ کہتے ہیں کہ: اس کی سند حسن صحیح ہے۔ ماخوذ از: "صحيح سنن أبي داود" (3/281)
اسی طرح "الموسوعة الفقهية" (24/177) میں ہے کہ:
"نمازی اگر اکیلا ہو ، یا امام ہو تو اپنے سامنے سترہ رکھنا مسنون ہے تا کہ کوئی اس کے آگے سے نہ گزرے، اور نماز کے تمام ارکان مکمل خشوع کے ساتھ ادا کر سکے، اس کی دلیل سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (جب تم میں سے کوئی نماز پڑھنے لگے تو سترے کی طرف رخ کر کے نماز ادا کرے اور سترے کے قریب کھڑا ہو، اور کسی کو اپنے آگے سے نہ گزرنے دے۔)اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان ہے: (تم اپنی نماز میں سترہ ضرور رکھو چاہے تیر ہی کیوں نہ ہو)۔
جبکہ مقتدی کے لیے سترہ رکھنا مستحب نہیں ہے، اس پر تمام اہل علم کا اتفاق ہے؛ کیونکہ امام کا سترہ مقتدیوں کا سترہ ہے، یا پھر مقتدیوں کے لیے امام سترہ ہوتا ہے۔" ختم شد
دوم:
سنت یہ ہے کہ نمازی اپنے سامنے کسی کھڑی چیز کو سترہ بنائے، اور افضل یہ ہے کہ کجاوے کی پچھلی لکڑی کے برابر چیز ہو؛ کیونکہ صحیح مسلم: (771) میں سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ آپ کہتی ہیں: (رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے نمازی کے سترے کے بارے میں پوچھا گیا، تو آپ نے فرمایا: کجاوے کی پچھلی لکڑی کے برابر۔) مسلم: (771)
علامہ نووی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"حدیث مبارکہ میں نمازی کے سامنے سترہ رکھنے کو مستحب قرار دیا گیا ہے، اور بتلایا کہ سترے کا کم از کم سائز کجاوے کی پچھلی لکڑی کے برابر ہے، اور یہ تقریباً بازو کی ہڈی کے برابر ہوتی ہے، یا دو تہائی بازو کے برابر ہوتی ہے، تو اس سائز کی کوئی بھی چیز اپنے سامنے کھڑی کر لے تو وہ نمازی کے لیے سترہ بن جائے گی۔" ختم شد
"شرح مسلم "از نووی: (4/216)
ابن قدامہ رحمہ اللہ "المغنی" (2/38)میں کہتے ہیں:
"سترے کی لمبائی: تقریباً ایک ہاتھ کے برابر ہے۔ اثرم رحمہ اللہ کہتے ہیں: ابو عبد اللہ سے کجاوے کی پچھلی لکڑی کے بارے میں پوچھا گیا کہ وہ کتنی بڑی ہوتی تھی؟ تو انہوں نے کہا: ایک ہاتھ کے برابر۔یہی موقف عطاء سے منقول ہے، اور یہی قول امام سفیان ثوری اور اصحاب رائے کا ہے۔ جبکہ امام احمد سے منقول ہے کہ یہ بازو کی ہڈی کے برابر ہوتی ہے۔ یہی موقف امام مالک اور شافعی رحمہما اللہ کا ہے۔
محسوس یہ ہوتا ہے کہ یہ سب باتیں لکڑی کا متعین سائز بتلانے کے لیے نہیں بلکہ ذہن میں سترے کی لمبائی کا تصور واضح کرنے کے لیے ہیں؛ کیونکہ نبی مکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے سترے کی مقدار کجاوے کی پچھلی لکڑی کے برابر قرار دی ہے، اور پچھلی لکڑی چھوٹی بڑی ہو سکتی ہیں چنانچہ بسا اوقات ایک ہاتھ جتنی لمبی ہو گی تو کبھی اس سے کم یا زیادہ بھی ہو سکتی ہے، لہذا جو بھی چیز ایک ہاتھ کے قریب قریب ہو تو وہ سترہ بن سکتا ہے۔ واللہ اعلم
جبکہ اس کی موٹائی کے حوالے سے ہمیں کوئی حد بندی معلوم نہیں ہے، اس لیے سترہ تیر اور چھوٹے نیزے کی طرح باریک بھی ہو سکتا ہے، دیوار کی طرح موٹا بھی ہو سکتا ہے؛ کیونکہ نبی مکرم صلی اللہ علیہ و سلم چھوٹی برچھی کو بھی سترہ بنا لیا کرتے تھے، ابو سعید رحمہ اللہ کہتے ہیں: ہم نماز کے لیے تیر اور پتھر وغیرہ کو بھی سترہ بنا لیا کرتے تھے۔ اسی طرح سبرۃ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی مکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (نماز میں سترہ رکھو چاہے تیر ہی کیوں نہ ہو) اسے اثرم رحمہ اللہ نے روایت کیا ہے۔ جبکہ اوزاعی رحمہ اللہ کے ہاں سترے کے لیے ڈنڈا اور تیر کافی ہیں۔ امام احمد رحمہ اللہ کہتے ہیں: جو چیز جتنی چوڑی ہو وہ بطور سترہ مجھے زیادہ پسند ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے سترے کے بارے میں فرمایا: "چاہے تیر ہی کیوں نہ ہو" یعنی یہ کم از کم ہے، اگر تیر کے علاوہ کوئی چوڑی اور موٹی چیز ہو تو وہ زیادہ بہتر ہے۔" ختم شد
الشیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ سے نمازی کے لیے سترے کی مقدار کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے جواب دیا:
"نمازی اپنے سامنے جس چیز کو بطور سترہ رکھے تو اِس کے لیے افضل یہ ہے کہ کجاوے کی پچھلی لکڑی کے برابر یعنی تقریباً دو تہائی ہاتھ جتنی چیز ہو ، اور اگر کسی چیز کا سائز اس سے کم ہو تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے، چاہے تیر ہو یا ڈنڈا ہو، سترے کے لیے کافی ہو گا۔" ختم شد
"مجموع فتاوى ابن عثیمین" (13/326)
سوم:
سنت یہ ہے کہ نمازی سترے کے قریب کھڑا ہو کہ سترے اور اپنے درمیان سے گزرنے والے کو روک سکے؛ کیونکہ سنن ابو داود: (695) میں سیدنا سہل بن ابی حثمہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (جب تم میں سے کوئی سترہ رکھ کر نماز ادا کرے تو سترے کے قریب کھڑا ہو تو اس کی نماز شیطان نہیں کاٹ سکے گا۔) اس حدیث کو ابن عبد البر نے "التمهيد" (4/195) میں روایت کیا ہے، جبکہ نوویؒ نے اسے "المجموع" (3/244) میں صحیح قرار دیا ہے، اسی طرح البانیؒ نے بھی اسے صحیح ابو داود میں صحیح کہا ہے۔
سترے اور نمازی کے درمیان مسافت کہاں سے شروع کی جائے گی؟ اس حوالے سے اہل علم کا اختلاف ہے۔
چنانچہ کچھ اہل علم یہ کہتے ہیں کہ: نمازی کے قدموں سے تین ہاتھ کے فاصلے پر سترہ رکھا جائے، اس کی دلیل صحیح بخاری: (506) میں سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے نافع بیان کرتے ہیں کہ: (جب کعبہ میں داخل ہوتے تو سیدھے سامنے کی طرف چلتے جاتے۔ دروازہ پیٹھ کی طرف ہوتا اور آپ آگے بڑھتے جب ان کے اور سامنے کی دیوار کا فاصلہ قریب تین ہاتھ کے رہ جاتا تو نماز پڑھتے۔ عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما اسی جگہ نماز پڑھنا چاہتے تھے جس کے متعلق سیدنا بلال رضی اللہ عنہ نے انہیں بتایا تھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے یہیں نماز پڑھی تھی۔)
اسی طرح "الموسوعة الفقهية" (24/184) میں ہے کہ:
"سترہ رکھ کر نماز پڑھنے والے کے لیے مستحب یہ ہے کہ سترے اور اپنے قدموں کے درمیان تین ہاتھ کا فاصلہ رکھے، اس سے زیادہ فاصلہ نہ ہو؛ کیونکہ حدیث مبارکہ ہے کہ: (نبی مکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے کعبہ کے اندر نماز ادا کی اور آپ کے اور دیوار کے درمیان تین ہاتھ کا فاصلہ تھا۔) یہ فاصلہ احناف، شوافع، اور حنابلہ کے ہاں ہے، یہی موقف مالکی فقہائے کرام کی گفتگو سے سمجھ میں آتا ہے، کیونکہ سترے اور نمازی کے درمیان اتنا فاصلہ تو ہونا چاہیے کہ نمازی آسانی سے رکوع اور سجدہ اور قیام کر سکے۔" مختصراً ختم شد
جبکہ دیگر اہل علم یہ کہتے ہیں کہ: نمازی کے سجدے والی جگہ کے بعد اتنی جگہ ہو کہ بکری وہاں سے گزر سکے؛ اس کی دلیل بھی صحیح بخاری: (474) اور مسلم: (508) میں سیدنا سہل بن سعد رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ: ( رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے جائے نماز اور دیوار کے درمیان اتنا فاصلہ تھا کہ بکری گزر جائے)
علامہ نووی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
" حدیث میں مذکور بات کہ: (رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے جائے نماز اور دیوار کے درمیان اتنا فاصلہ تھا کہ بکری گزر جائے ) میں جائے نماز سے مراد سجدے کی جگہ ہے، تو اس حدیث میں یہ بھی ہے کہ نمازی اپنے سترے کے قریب کھڑا ہو۔" ختم شد
کچھ علمائے کرام سیدنا ابن عمر اور سہل بن سعد رضی اللہ عنہم جمیعاً کی روایت میں تطبیق دیتے ہیں کہ ابن عمر رضی اللہ عنہما کی حدیث حالت قیام کے متعلق ہے، اور سیدنا سہل کی حدیث سجدے کی حالت کے متعلق ہے۔
جیسے کہ الشیخ البانیؒ "صفة الصلاة" (1/114)میں کہتے ہیں:
"رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی عادت مبارکہ تھی کہ آپ سترے کے قریب کھڑے ہوتے تھے، اسی لیے آپ صلی اللہ علیہ و سلم اور سترے کے درمیان 3 ہاتھ کا فاصلہ ہوتا تھا جبکہ سجدے والی جگہ اور دیوار کے درمیان بکری کے گزرنے کی جگہ ہوتی تھی۔" ختم شد
واللہ اعلم