الحمد للہ.
اول:
جس کے پاس سونا تجارت کیلئے ہو، تو اسے تجارت کی زکاۃ ادا کرنی ہوگی، اور تجارت میں ایسی صورت شامل نہیں ہوتی جس میں سونے کا مالک صرف ضرورت پڑنے پر سونا فروخت کرتا ہے، یا پرانا سونا بیچ کر نیا سونا پہننے کیلئے خرید لیتا ہے، اس صورت کو زیرِ استعمال سونے میں شامل کیا جائےگا، تجارت میں شامل نہیں ہوگی۔
چنانچہ آپکے سوال سے ظاہر ہوتا ہے کہ آپکے پاس موجود تمام سونا زیرِ استعمال سونا ہے۔
دوم:
فقہائے کرام کی زیرِ استعمال سونے پر زکاۃ کے متعلق مختلف آراء ہیں، اور ان میں سے راجح یہی ہے کہ اس پر بھی زکاۃ واجب ہوتی ہے، جیسے کہ پہلے سوال نمبر: (19901) کے جواب میں گزر چکا ہے۔
اور ماضی میں اگر آپ کو زکاۃ واجب ہونے کے بارے میں علم نہیں تھا، یا آپ نے کسی ایسے عالم کی بات پر عمل کیا جو زیرِ استعمال سونے پر زکاۃ کا قائل نہیں تھا، تو ماضی کی زکاۃ کے بارے میں آپ پر کچھ نہیں ہے، لیکن مستقبل میں آپکو زکاۃ ادا کرنی پڑے گی۔
اور اگر آپ نے سُستی کرتے ہوئے ماضی میں زکاۃ ادا نہیں کی تو گذشتہ زکاۃ کو ادا کرنا ضروری ہوگا، اور اسکے لئے ماضی میں آپکے پاس کتنا سونا موجود تھا تخمینہ لگا کر اسی تخمینے کے اعتبار سے اپنے آپ کو زکاۃ ادا کرکے بری الذمہ کروگی۔
شیخ ابن باز رحمہ اللہ سے ایک عورت کے بارے میں پوچھا گیا، جس کے پاس کئی سالوں سے سونا تھا، لیکن اُسے بعد میں اس سونے پر زکاۃ واجب ہونے کے بارے میں علم ہوا تو کیا اب اسے گذشتہ سالوں کی زکاۃ ادا کرنے پڑے گی؟
تو انہوں نے جواب دیا:
"جس وقت سے آپکو زکاۃ واجب ہونے کے بارے میں علم ہوا ہے اس وقت سے آپ کو زکاۃ ادا کرنی ہوگی، جبکہ گذشتہ سالوں کے بارے میں آپ پر کوئی زکاۃ نہیں ہے، کیونکہ شرعی احکام اسی وقت لازم ہوتے ہیں جب ان کے بارے میں علم ہوجائے"انتہی
"فتاوى شيخ ابن باز" (14/111)
ایک اسی سے ملتے جلتے سوال کے بارے میں شیخ رحمہ اللہ نے کہا:
"اس خاتون پر ضروری ہے کہ مستقبل میں ہر سال اگر زیور نصابِ زکاۃ تک پہنچتا ہے تو اسے ہر سال زکاۃ ادا کرنی پڑے گی۔۔۔ اور زیور پر زکاۃ واجب ہونے کا علم ہونے سے پہلے کے سالوں کی زکاۃ اس پر نہیں ہے، کیونکہ اسے اس بارے میں علم نہیں تھا، اور اس کے بارے میں کچھ ابہام بھی پایا جاتا ہے، کیونکہ کچھ اہل علم سونے چاندی کے زیور میں زکاۃ کے قائل نہیں ہیں، لیکن راجح یہی ہے کہ زیور میں زکاۃ واجب ہے، بشرطیکہ کہ نصاب کے برابر ہوں اور اس پر ایک سال گزر جائے، کیونکہ کتاب و سنت سے یہ چیز ثابت ہوچکی ہے"انتہی
"فتاوى اسلاميہ" (2/85)
واللہ اعلم .