الحمد للہ.
آپ نے جو پڑھا ہے کہ حج کی وجہ سے کبیرہ گناہ بھی مٹ جاتے ہیں اس کے بارے میں علمائے کرام کا اختلاف ہے، تاہم ہمیں امید ہے کہ حج مبرور کے بدلے میں اللہ تعالی صغیرہ و کبیرہ تمام گناہ معاف فرما دے گا، کیونکہ اللہ تعالی کا فضل بہت وسیع ہے۔
جن گناہوں کیلیے حج کفارہ بن جاتا ہے وہ حقوق اللہ سے متعلق گناہ ہیں، لیکن جو گناہ حقوق العباد سے متعلق ہیں وہ حج ، جہاد، ہجرت یا کسی بھی دوسری عبادت سے ساقط نہیں ہوتے، بلکہ کچھ حقوق اللہ ایسے ہیں جو حج کی وجہ سے بھی ختم نہیں ہوتے، مثال کے طور پر: روزوں کی قضا، نذر، کفارہ وغیرہ حج سمیت کسی بھی نیکی سے ساقط نہیں ہوں گے، یہ دونوں باتیں علمائے کرام کے ہاں متفقہ طور پر مسلّمہ ہیں، نیز ان کا تفصیلی بیان سوال نمبر: (138630) میں گزر چکاہے، اس کا عنوان ہے: "حج کی وجہ سے کفارہ اور قرضہ کی شکل میں واجب حقوق ساقط نہیں ہوتے" اس میں یہ ہے کہ:
" حج کی فضیلت میں بہت سی احادیث وارد ہوئی ہیں، جن میں یہ بات ہے کہ حج کی وجہ سے گناہ دُھل جاتے ہیں، اور انسان ایسے واپس لوٹتا ہے جیسے اسکی ماں نے آج ہی اسے جنم دیا ہو، لیکن اس فضیلت اور ثواب کا ہرگز مطلب یہ نہیں ہے کہ اس سے واجب حقوق بھی ساقط ہوجائیں گے، چاہے حقوق اللہ ہوں، مثال کے طور پر: کفارہ، نذر، اور غیر ادا شدہ زکاۃ،فوت شدہ روزوں کی قضا وغیرہ، یا حقوق العباد ہوں: مثال کے طور پر قرضہ وغیرہ، چنانچہ حج کی وجہ سے گناہ مٹ جاتے ہیں، لیکن علمائے کرام کے اتفاق کے مطابق مذکورہ حقوق ساقط نہیں ہوتے۔۔۔"
بلکہ توبہ کرنے سے بھی گناہ تو دھل جاتے ہیں لیکن حقوق ساقط نہیں ہوتے۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"جو شخص جان بوجھ کر نماز چھوڑ دے، اسی طرح زکاۃ واجب ہونے کے باوجود زکاۃ ادا نہ کرے، اپنے والدین کا نافرمان ہو، قتل خطا کا مرتکب ہو، اور پھر وہ حج کرنے چلا جائے تو کیا اس کے اس عمل سے یہ تمام گناہ معاف ہو جائیں گے اور حقوق العباد ساقط ہو جائیں گے؟"
اس پر انہوں نے جواب دیا:
"مسلمانوں کا اس بات پر اجماع ہے کہ قرضے وغیرہ کی شکل میں حقوق العباد ساقط نہیں ہوتے، اسی طرح واجب شدہ نماز، روزہ، زکاۃ، مقتول کے حقوق بھی ساقط نہیں ہوں گے چاہے وہ حج ہی کیوں نہ کر لے، چنانچہ جس شخص کے ذمہ قضا واجب ہے اسے اس نماز کی قضا دینا ہو گی چاہے وہ حج کیوں نہ کر لے، اس پر علمائے کرام کا اتفاق ہے۔" انتہی
"جامع المسائل" (4/123)
لہذا اگر قاتل شخص حج کر بھی لے تو اس سے مقتول کا حق حج کی وجہ سے ساقط نہیں ہو گا، تاہم اگر کوئی شخص سچی توبہ کر لے تو ممکن ہے کہ اللہ تعالی اس پر اپنا فضلِ خاص کرتے ہوئے مقتول کو اپنی طرف سے راضی فرما دے۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اگر قاتل کی نیکیاں زیادہ ہوئیں تو قاتل کی اتنی مقدار میں نیکیاں مقتول کو دی جائیں گی جن سے مقتول راضی ہو جائے، یا پھر یہ بھی ممکن ہے کہ قاتل کے سچی توبہ کرنے کی وجہ سے اللہ تعالی مقتول کو اپنی طرف سے بدلہ دے دے۔" انتہی
"مجموع الفتاوى" (34/138)
ابن قیم رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اس مسئلے میں تحقیقی بات یہ ہے کہ: قتل سے تین قسم کے حقوق منسلک ہوتے ہیں: اللہ تعالی کا حق، مقتول کا حق اور حکمران [آج کل قانون نافذ کرنے والے ادارے]کا حق۔
چنانچہ اگر قاتل اللہ کے خوف سے سچی توبہ کرتے ہوئے پشیمانی کے ساتھ اپنے آپ کو حکمران کے حوالے کر دے توایسی صورت میں توبہ کے باعث اللہ تعالی کا حق ساقط ہو جائے گا اور حکمران کا حق تمام حقوق وصول کرنے یا صلح یا معافی سے ساقط ہو جائے گا۔
جبکہ مقتول کا حق باقی رہ جائے گا، جسے اللہ تعالی توبہ تائب ہونے والے بندے کی طرف سے مقتول کو راضی کر کے ادا کرے گا اور دونوں میں صلح فرمائے گا، چنانچہ مقتول کا حق ختم نہیں ہو تا اور نہ ہی توبہ کی وجہ سے ساقط ہوتا ہے۔" انتہی
" الجواب الكافی" ( ص 102 )
اسی سے ملتا جلتا جواب شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ نے " الشرح الممتع على زاد المستقنع " ( 14 / 7 ) میں بھی دیا ہے۔
واللہ اعلم.