جمعہ 21 جمادی اولی 1446 - 22 نومبر 2024
اردو

اگر کرایہ دار مالک کو تاخیر سے کرایہ دے تو مالک اس پر جرمانہ عائد کرنے کی شرط لگاتا ہے

145626

تاریخ اشاعت : 29-01-2024

مشاہدات : 1638

سوال

میں امریکا میں رہتا ہوں اور یہاں پر مکان کرایہ پر لینے کا طریقہ یہ ہے کہ کرایہ مہینے کے آغاز میں ادا کیا جاتا ہے، اور اگر آپ محدود مدت تک کرایہ ادا نہیں کرتے تو مالک مکان تاخیر کی وجہ سے مخصوص جرمانہ عائد کر دیتا ہے، کبھی یہ بھی ہوتا ہے کہ کرایہ نامہ میں جرمانے کی رقم کا ذکر بھی ہوتا ہے، تو میرا سوال یہ ہے کہ کیا یہ جرمانہ سود ہے؟ اور اگر ہر ماہ وقت پر کرایہ ادا کروں اور جرمانہ عائد نہ ہونے دوں تو کیا پھر بھی میں سودی لین دین میں ملوث شمار ہوں گا؟ حالانکہ میں تو وقت پر کرایہ ادا کر رہا ہوں۔

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

کوئی شخص مکان کرائے پر لے اور مالک مکان کے ساتھ معاہدہ طے ہو جائے اور مالک مکان کرایہ دار کو مکان میں رہنے کی اجازت دے دے تو معاہدے کے وقت سے ہی کرایہ کی رقم کرایہ دار کے ذمہ مالک مکان کا قرض شمار ہو گا۔

جیسے کہ علامہ ابن قدامہ رحمہ اللہ "الکافی" (1/279) میں کہتے ہیں:
"اگر کوئی اپنا گھر کئی سالوں کے لیے کرائے پر دے: تو مالک مکان کرائے کے معاہدے کے وقت سے اس رقم کا مالک بن جائے گا ، اور اس کرائے کی رقم پر زکاۃ کا سال بھی شمار کیا جائے گا، اور یہ رقم مالک مکان کا کرایہ دار پر قرض شمار ہو گی۔ " ختم شد

اس بنا پر: اگر کرائے کی رقم کرایہ نامہ جاری ہونے سے ہی کرایہ دار پر مالک مکان کا قرض شمار ہو گی تو پھر اب مالک مکان کے لیے یہ جائز نہیں ہے کہ کرایہ دار پر کرائے کی ادائیگی میں تاخیر کی وجہ سے منافع [جرمانہ] عائد کرے، یا اضافی کرایہ وصول کرے؛ کیونکہ یہ حرام سود میں شمار ہو گا۔

دوم:

اگر کرایہ نامہ میں ہی ادائیگی کی تاخیر کی صورت میں جرمانے کا ذکر ہو تو پھر کرائے کا یہ معاہدہ ہی حرام ہو گا، ایسے معاملے میں شامل ہی نہیں ہونا چاہیے؛ بھلے انسان کو یہ یقین ہو کہ وہ وقت پر کرایہ ادا کر دیا کرے گا؛ کیونکہ ایسے معاہدے میں شمولیت سودی لین دین کا اقرار اور اپنے آپ کو اس کا پابند بنانا ہے جو کہ حرام ہے، نیز انسان کو بیماری اور سفر جیسے حالات کا سامنا بھی کرنا پڑ سکتا ہے جو اسے وقت پر ادائیگی کے لیے رکاوٹ بن سکتے ہیں۔

اس بارے میں مزید کے لیے آپ سوال نمبر: (101384 ) کا جواب ملاحظہ کریں۔

واللہ اعلم

ماخذ: الاسلام سوال و جواب