سوموار 22 جمادی ثانیہ 1446 - 23 دسمبر 2024
اردو

خاتون کا برقع نجاست زدہ ہو جائے تو پاک کیسے ہو گا؟

سوال

صحابیات نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کو شکایت کی تھی کہ ان کی اوڑھنی زمین پر لگنے کی وجہ سے گندی ہو جاتی ہے، تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے انہیں فرمایا تھا: (گندی جگہ کے بعد والی خشک جگہ تمہاری اوڑھنی کو پاک کر دے گی)۔ آج کل جب ہم کسی سڑک پر جا رہے ہوں اور گٹر کے پانی میں سے ہمیں گزرنا پڑے، اور پھر تارکول کی بنی ہوئی سڑک پر سے گزر کر ہم اپنا سفر مکمل کر لیں اور پھر گاڑی میں سوار ہو جائیں تو کیا ہماری اوڑھنی پاک ہو گی؟ میرا سوال یہ ہے کہ: ہماری چادر کو مٹی پاک کرتی ہے یا محض خشک زمین پر چلنے سے وہ پاک ہو جاتی ہے؟ یا اس کا کچھ اور مفہوم ہے؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

یہ مسئلہ اہل علم کے ہاں بڑا مشہور اختلافی مسئلہ ہے، تو جمہور اہل علم یہ کہتے ہیں کہ اگر نجاست کسی کپڑے یا جوتے میں لگی ہوئی ہو تو پانی سے دھوئے بغیر کپڑا یا جوتا پاک نہیں ہو گا، جبکہ حنفی فقہائے کرام کہتے ہیں کہ: کسی بھی چیز سے نجاست زائل ہو جائے تو اس چیز کی طہارت کے لیے کافی ہے، احناف کے اس موقف پر شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ سمیت معاصر متعدد محققین کی تائید بھی موجود ہے، اور یہی موقف ٹھیک ہے۔

جیسے کہ ابراہیم بن عبد الرحمن بن عوف کی ام ولد کہتی ہیں کہ انہوں نے سیدہ ام المؤمنین سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا کہ: میں اپنی قمیض کا دامن بہت لمبا رکھتی ہوں، اور مجھے گندگی والی جگہ سے بھی گزرنا پڑتا ہے؛ تو اس پر سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے کہا: آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان ہے کہ: (اس کپڑے کو بعد میں آنے والی جگہ پاک کر دے گی۔) اس حدیث کو ترمذی (143) ، ابو داود (383) اور ابن ماجہ (531)نے روایت کیا ہے اور البانی رحمہ اللہ نے اسے صحیح ترمذی میں صحیح قرار دیا ہے ۔

ایک اور روایت میں سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (جب تم میں سے کوئی مسجد آئے تو دیکھے : اگر اس کی جوتیوں میں نجاست یا گندگی ہو تو اسے [زمین سے رگڑ کر ] صاف کر لے، اور دونوں جوتے پہن کر نماز ادا کرے۔) ا س حدیث کو ابو داود (650) نے روایت کیا ہے اور البانی نے اسے صحیح ابو داود میں صحیح قرار دیا ہے۔

تو ان دونوں احادیث میں یہ ثابت ہوا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے نجاست کو پانی کے علاوہ کسی اور چیز سے زائل کرنے کا حکم دیا ہے۔

شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"احادیث مبارکہ میں پانی کے ذریعے نجاست زائل کرنے کا حکم بھی دیا ہے، جیسے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے سیدہ اسما رضی اللہ عنہا کو [حیض کے خون کو دھونے کے متعلق] فرمایا تھا: (تم اسے کھرچ لو، اور پھر انگلیوں کے پوروں اور ناخن سے اسے ملو اور پھر پانی سے اسے دھو لو) -بخاری و مسلم - اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے مجوسیوں کے برتنوں کے بارے میں فرمایا: (انہیں پانی سے دھو لو) -صحیح سند کے ساتھ ترمذی، ابو داود، ابن ماجہ نے روایت کیا ہے، نیز یہ روایت اہل کتاب کے برتنوں کے متعلق ہے، مجوسیوں کے برتنوں کے متعلق نہیں-اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے مسجد میں پیشاب کر دینے والے دیہاتی آدمی کے متعلق فرمایا تھا: (اس کے پیشاب پر پانی سے بھرا ڈول گرا دو) -بخاری ومسلم- تو ان واقعات سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے مخصوص حالات میں پانی سے نجاست زائل کرنے کا حکم دیا ہے، ایسا نہیں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے نجاست کو صرف پانی سے ہی زائل کرنے کا عمومی حکم دیا ہو۔

کیونکہ کچھ جگہوں میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے پانی کے بغیر بھی نجاست زائل کرنے کی اجازت دی ہے، جیسے کہ:

  • قضائے حاجت کے بعد پتھر سے صفائی کرنا۔
  • جوتوں کے بارے میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان: (دونوں جوتوں کو مٹی پر رگڑے؛ کیونکہ مٹی ان دونوں کو پاک کر دے گی) -یہ روایت ابو داود نے بیان کی ہے اور البانی نے اسے صحیح قرار دیا ہے-
  • خاتون کے دامن کے متعلق فرمایا: (اسے بعد والی زمین پاک کر دے گی)
  • یہ بھی کہ کتے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی مسجد میں آتے جاتے تھے اور بول بھی کر دیتے تھے، تو صحابہ کرام اسے دھوتے نہیں تھے۔ اس بات کو امام بخاری نے روایت کیا ہے۔
  • آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے بلی کے بارے میں فرمایا: (یقیناً بلی تم پر بار بار چکر لگانے والوں اور چکر لگانے والیوں میں شامل ہے) -یہ حدیث صحیح سند کے ساتھ ترمذی ،ابو داود، نسائی اور ابن ماجہ نے بیان کی ہے- حالانکہ بلی عام طور پر چوہے بھی کھا جاتی ہے، اور مدینہ میں پانی کا کوئی کھالا بھی نہیں تھا کہ جہاں بلی کا منہ پانی کی وجہ سے پاک ہو جائے، تو یہاں بلی کا منہ اس کے لعاب سے پاک ہو تا تھا۔
  • کوئی چیز خود بخود شراب بن جائے تو تمام مسلمانوں کا متفقہ موقف ہے کہ وہ پاک ہی ہے۔

تو اگر معاملہ ایسا ہی ہے تو اس مسئلے میں راجح موقف یہ ہو گا کہ : نجاست جیسے بھی زائل ہو تو نجاست کی وجہ سے لگنے والا حکم بھی زائل ہو جائے گا؛ کیونکہ جب حکم کسی علت کی وجہ سے لاگو ہو تو اس علت کے زائل ہونے سے حکم بھی زائل ہو جائے گا۔ لیکن بلا ضرورت کھانے پینے کی چیز کو نجاست زائل کرنے کے لیے استعمال کرنا جائز نہیں ہو گا؛ کیونکہ اس سے قیمتی چیز ضائع ہو گی ۔ نیز کھانے پینے کی چیزوں سے استنجا کرنا بھی جائز نہیں ہے۔

جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ نجاست زائل کرنے کے لیے صرف پانی ہی استعمال کیا جا سکتا ہے، ان میں سے کچھ کہتے ہیں کہ صرف پانی کے ساتھ نجاست زائل کرنے کا حکم تعبدی حکم ہے۔ تو یہ بات ٹھیک نہیں ہے؛ کیونکہ صاحب شریعت صلی اللہ علیہ و سلم نے پانی کے ساتھ نجاست زائل کرنے کا حکم مخصوص حالات میں دیا ہے کیونکہ ان حالات میں نجاست صرف پانی سے ہی زائل ہو سکتی تھی؛ کیونکہ اُن صورتوں میں مسلمانوں کے کام آنے والی دیگر مائع چیزوں کے ذریعے نجاست زائل کرنے سے اس چیز کا ضیاع ہوتا، اور جامد چیزوں سے ان کی طہارت ناممکن تھی جیسے کہ کپڑے ، برتن اور زمین کو پانی سے دھو کر پاک کرنے کا حکم دیا گیا؛ کیونکہ یہ بات بالکل واضح ہے کہ اگر صحابہ کرام کے پاس عرق گلاب یا سرکے وغیرہ کی شکل میں کوئی مائع چیز ہوتی تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم اُنہیں مائع چیز کو ضائع کرنے کا حکم نہ دیتے، لیکن ان کے پاس کوئی مائع چیز موجود ہی نہیں تھی۔

جبکہ کچھ کہتے ہیں کہ: پانی سے نجاست زائل کرنے کا حکم اس لیے دیا ہے کہ پانی جیسی لطافت کسی اور مائع میں نہیں ہے، اس لیے پانی کے ساتھ کسی اور مائع کو شامل نہیں کیا جائے گا۔ تو یہ بات بھی ٹھیک نہیں ہے؛ کیونکہ سرکہ اور عرق گلاب سمیت دیگر مائع چیزیں برتنوں کی نجاست سے صفائی پانی جیسی نہیں بلکہ پانی سے بھی بڑھ کر کرتے ہیں۔" ختم شد
"مجموع الفتاوى" (21/474 – 476)

چنانچہ مندرجہ بالا تفصیلات سے واضح ہو گیا کہ جس عورت کے دامن پر کوئی نجاست لگ جائے اور عورت کے بعد عام زمین، یا سٹرک، یا گلی، یا اینٹوں کے فرش پر چلنے کی وجہ سے نجاست بالکل اچھی زائل ہو جائے کہ نجاست کے اثرات بھی باقی نہ رہیں تو اس عورت کا دامن پاک ہو جائے گا، اور اس نجاست کو زائل کرنے کے لیے صرف پانی کا استعمال لازم نہیں ہو گا۔

واللہ اعلم

ماخذ: الاسلام سوال و جواب