الحمد للہ.
خادمہ کو تحفہ یا صدقہ اس کی ضرورت کو دیکھتے ہوئے دینا جائز ہے۔
شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ سے پوچھا گیا:
کیا گھر میں کام کرنے والی ملازمہ کو زکاۃ کی مد سے صدقہ دینا جائز ہے؟ واضح رہے کہ ہم اس کی تنخواہ الگ سے پوری اور تسلسل کے ساتھ دیتے ہیں؟
تو انہوں نے جواب دیا:
"اگر انسان کے خادم یا خادمہ کے گھر والے اس کے ملک میں غریب ہیں اور اسے ملنے والی تنخواہ اس کے لیے ناکافی ہو تی ہے تو پھر انسان اپنی زکاۃ اپنے خادم یا خادمہ کو دے سکتا ہے۔ لیکن اگر اس کی تنخواہ اتنی ہے کہ اس کے گھر والوں کو پوری ہو جائے تو پھر اسے زکاۃ دینا جائز نہیں ہے؛ کیونکہ فرمانِ باری تعالی ہے:
إِنَّمَا الصَّدَقَاتُ لِلْفُقَرَاءِ وَالْمَسَاكِينِ وَالْعَامِلِينَ عَلَيْهَا وَالْمُؤَلَّفَةِ قُلُوبُهُمْ وَفِي الرِّقَابِ وَالْغَارِمِينَ وَفِي سَبِيلِ اللَّهِ وَاِبْنِ السَّبِيلِ فَرِيضَةً مِنْ اللَّهِ وَاللَّهُ عَلِيمٌ حَكِيمٌ
ترجمہ: بے شک اموالِ صدقہ فقیروں کے لیے اور مسکینوں کے لیے اور صدقہ اکٹھا کرنے والوں کے لیے اور ان کے لیے ہیں جن کا دل جیتنا مقصود ہو، اور غلاموں اور لونڈیوں کو آزاد کرانے کے لیے اور قرضداروں کا قرض چکانے کے لیے ہیں، اور اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کے لیے اور مسافر کے لیے ہیں، یہ اللہ کی جانب سے فرض ہے اور اللہ بڑا جاننے والا، بڑی حکمتوں والا ہے۔ [التوبۃ: 60]
اسی طرح نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے سیدنا معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کو یمن ارسال کرتے ہوئے فرمایا تھا: (انہیں بتلاؤ کہ اللہ تعالی نے ان پر ان کی دولت میں سے صدقہ [یعنی زکاۃ] دینا فرض کیا ہے جو ان کے امیروں سے لے کر انہی کے غریبوں کو دیا جائے گا ) " ختم شد
لہذا اگر یہ زکاۃ کے مال میں جائز ہے تو پھر یہ نفلی صدقے میں تو بالاولی جائز ہو گا۔
یہاں یہ بات بالکل واضح ہو جائے کہ اپنی خادمہ کو زکاۃ دے کر اس سے کوئی ذاتی مفاد حاصل نہ کرے۔
مثلاً: زکاۃ کی رقم تنخواہ میں اضافے کی مد میں ، یا کسی وعدہ شدہ انعام یا بونس کی مد میں نہ دے۔ اسی طرح یہ بھی نہ کرے کہ اس سے متفقہ کام سے زیادہ کام لے یا کسی اور قسم کا کوئی ذاتی مفاد بھی نہ لے۔
اس بارے میں مزید کے لیے آپ سوال نمبر: (67926 ) کا جواب ملاحظہ کریں۔
واللہ اعلم