الحمد للہ.
علمائے کرام کا حاملہ کے بارے میں اختلاف ہے کہ کیا اسے حیض آسکتا ہے یا نہیں؟ اس بارے میں ان کے دو موقف ہیں، اور راجح یہی ہے کہ حاملہ خاتون کو بھی حیض آسکتا ہے، اگرچہ ایسی صورت حال خواتین میں بہت کم ہی پیدا ہوتی ہے، اسی موقف پر مالکی، شافعی اور ایک روایت کے مطابق امام احمد بھی اسی کے قائل ہیں، اور بہت سے اہل علم نے اسی کو راجح قرار دیا ہے، تاہم علمائے کرام نے حاملہ عورت کو حیض آنے کی شرط یہ رکھی ہے کہ خون رنگ اور وقت دونوں حیض والے ہی ہونے چاہییں۔
مزید کیلئے سوال نمبر: (23400) کا مطالعہ کریں۔
مذکورہ بالا شرط کے مطابق یہی محسوس ہوتا ہے کہ یہ خون حیض کا خون نہیں تھا۔
تاہم آپ کو چھوڑی ہوئی نمازیں دوبارہ دہرانے کی ضرورت نہیں ہے؛ کیونکہ آپ نے انہیں حیض کا خون سمجھ کر ہی چھوڑا تھا۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اسی مسئلہ سے متعلقہ صورت یہ بھی ہے کہ: اگر کوئی مستحاضہ عورت نمازیں اس لیے نہ
پڑھے کہ اسے اس حالت میں نماز واجب ہونے کا علم ہی نہیں ہے، تو ایسی عورت کے بارے
میں دو موقف ہیں: جن میں سے ایک یہ ہے کہ اس پر چھوڑی ہوئی نمازوں کی قضا واجب نہیں
ہے، یہی موقف امام مالک وغیرہ سے بھی منقول ہے؛ کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے
ایک مستحاضہ عورت نے کہا تھا: "مجھے اتنا شدید اور سخت قسم کا خون آتا ہے جس کی
وجہ سے میں نماز روزے کا اہتمام نہیں کر سکتی" تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے
مستقبل کے واجبات سے متعلق حکم دیا لیکن ماضی کی فوت شدہ نمازوں کی قضا کا حکم نہیں
دیا" انتہی
"مجموع الفتاوى" (21/ 101)
واللہ اعلم.