جمعہ 21 جمادی اولی 1446 - 22 نومبر 2024
اردو

نو ماہ تک نفاس کا خون جاری رہا، اور اس نے اس سارے عرصے میں نماز نہیں پڑھی

سوال

میری سہیلی کو نو ماہ تک نفاس کا خون آتا رہا، وہ اس دوران کبھی کبھار نماز پڑھ لیتی تھی، تو اب وہ کیا کرے؟ اگر ہم یہ کہیں کہ نفاس کی زیادہ سے زیادہ مدت 60 دن ہے تو اس پر چھ ماہ کی نمازیں رہتی ہیں، تو ان نمازوں کی قضا کیسے کرے؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

نفاس کی زیادہ سے زیادہ کتنی مدت ہے؟ اس بارے میں علمائے کرام کے مختلف اقوال اور راجح موقف پہلے گزر چکا ہے ، راجح موقف 40 دن کا ہے۔

دوم:

نفاس کی مدت پوری ہو جانے کے بعد بھی آنے والا خون اگر حیض کے ایام میں آ رہا ہے تو وہ حیض کا خون ہے، ایسے میں عورت نماز نہیں پڑھے گی اور نہ ہی روزے رکھے گی، خاوند بھی تعلقات قائم نہیں کر سکے گا، یہاں تک کہ اس کی ماہواری کے ایام ختم ہو جائیں۔

اور اگر نفاس کے بعد آنے والا خون حیض کے ایام سے ہٹ کر ہے تو پھر وہ استحاضہ کا خون ہے، ایسی خاتون نماز روزے کا اہتمام کرے گی اور اس کا خاوند اس سے جماع بھی کر سکتا ہے، نیز ایسی خاتون ہر نماز کا وقت شروع ہونے پر وضو کرے گی اور پھر اس وضو سے جتنے بھی نوافل پڑھنا چاہے پڑھ سکتی ہے۔

اس بارے میں مزید کے لیے آپ سوال نمبر: (106464) کا جواب ملاحظہ کریں۔

سوم:

اگر کوئی مستحاضہ خاتون لا علمی کی بنا پر نمازیں چھوڑ دے تو کیا چھوڑی ہوئی نمازوں کی قضا اس پر لازم ہو گی یا نہیں؟ اس بارے میں علمائے کرام کے دو موقف ہیں:

پہلا موقف: اسے تمام نمازوں کی قضا دینی ہو گی۔

دوسرا موقف: اسے تمام نمازوں کی قضا نہیں دینی ہوگی، یہ موقف شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ للہ کا ہے۔

شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اگر مستحاضہ عورت کافی عرصے تک نماز نہ پڑھے، یہ سمجھتے ہوئے کہ اس پر نماز فرض ہی نہیں ہے، تو اس پر نماز کی قضا سے متعلق دو موقف ہیں: ایک یہ کہ: اس پر قضا نہیں ہے، یہ موقف امام مالک وغیرہ سے منقول ہے؛ کیونکہ ایک مستحاضہ خاتون نے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو آ کر بتلایا تھا کہ: (مجھے بہت زیادہ اور شدید نوعیت کا حیض آتا ہے، اس نے مجھے نماز اور روزے رکھنے سے روکا ہوا ہے) تو اس عورت کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے صرف مستقبل کے بارے میں رہنمائی دی تھی، ماضی کی نمازوں کی قضا کا حکم نہیں دیا تھا۔" ختم شد
"مجموع الفتاوى" (21/102)

شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"افضل یہی ہے کہ ابتدائی ایام میں چھوڑی ہوئی نمازوں کی قضا دے، اگر نہ بھی دے تو کوئی حرج نہیں ہے؛ اس کی وجہ یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے اس مستحاضہ عورت کو نمازوں کی قضا کا حکم نہیں دیا تھا جس نے آ کر کہا تھا: کہ اسے انتہائی شدید ترین حیض آتا ہے، اور وہ ان دنوں میں نماز نہیں پڑھتی، تو نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے اسے حکم دیا تھا کہ: چھ یا سات دن حیض کے گزارا کرے، اور مہینے کے بقیہ ایام میں نمازیں پڑھے، آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اسے ماضی کی چھوڑی ہوئی نمازوں کی قضا دینے کا حکم نہیں دیا۔ اگر چھوڑی ہوئی نمازوں کی قضا دے دے تو یہ اچھا ہے؛ کیونکہ یہ ممکن ہے کہ سائلہ کی جانب سے سوال نہ کرنے کی بنا پر بار آتا ہو، تاہم اگر قضا نہ بھی دے تو اس پر کچھ نہیں ہے۔" ختم شد
"مجموع فتاوى ابن عثیمین" (11/ 276)

اس لیے آپ کی سہیلی کے لئے محتاط عمل یہی ہو گا کہ حسب استطاعت فوت شدہ نمازوں کی قضا دے، چھ ماہ کے دوران چھوڑی ہوئی نمازوں کی روزانہ کی بنیاد پر قضا دینا شروع کر دے؛ کیونکہ آپ کی سہیلی نے اپنے مسئلے کے متعلق دریافت نہیں کیا اور سستی کا مظاہرہ کیا ہے، اور اتنے لمبے عرصے تک اس نے نماز نہیں پڑھی، حالانکہ عام طور پر اتنا لمبا عرصہ نماز نہیں چھوڑی جاتی، نیز یہ بھی ہے کہ وہ درمیان میں کبھی کبھار نماز پڑھ بھی لیتی تھی، جس سے یہ محسوس ہوتا ہے کہ اسے معلوم تھا کہ اسے نماز پڑھنی چاہیے۔

مزید کے لیے آپ سوال نمبر: (31803) کا جواب ملاحظہ کریں۔

واللہ اعلم

ماخذ: الاسلام سوال و جواب