الحمد للہ.
تمام تعریفیں اللہ کیلئے ہیں۔
جمہور اہل علم کا موقف ہے کہ استطاعت رکھنے والے شخص پر حج فوری طور پر ادا کرنا واجب ہے ۔
ابن قدامہ رحمہ اللہ "المغنی" (3/212) میں کہتے ہیں کہ:
"جس پر حج واجب ہو جائے اور وہ ادا کرنے کی طاقت بھی رکھتا ہو، اسے فوری حج کرنا چاہئے، اور اس کیلئے تاخیر جائز نہیں، اسی کے ابو حنیفہ ، اور مالک قائل تھے، جسکی دلیل فرمانِ باری تعالی :
( وَلِلَّهِ عَلَى النَّاسِ حِجُّ الْبَيْتِ مَنِ اسْتَطَاعَ إِلَيْهِ سَبِيلاً وَمَنْ كَفَرَ فَإِنَّ اللَّهَ غَنِيٌّ عَنِ الْعَالَمِينَ ) آل عمران/97
ترجمہ: اور لوگوں پر اللہ کا یہ حق ہے کہ جو شخص اس گھر تک پہنچنے کی استطاعت رکھتا ہو وہ اس کاحج کرے "
اور استطاعت سے مراد مالی استطاعت ہے:
جسکے بارے میں دائمی فتوی کمیٹی کے فتاوی میں ہے (11/30):
"حج کیلئے استطاعت میں بدنی صحت اور بیت اللہ تک پہنچنے کیلئے سواری کا انتظام شامل ہے، چاہے ہوائی جہاز، یا گاڑی، یا جانور، یا حسبِ ضرورت کرایہ پاس ہو، اورآنے جانے کیلئے زادِ راہ کا مالک ہو، اور یہ سب کچھ اہل و عیال کے خرچے سے علیحدہ ہےکہ انکے لئے اتنا نان نفقہ چھوڑے کے حج سے واپس آنے تک کیلئے کافی ہو، جبکہ عورت کے ساتھ سفرِ حج یا عمرہ مین اسکا خاوند یا محرم ہونا ضروری ہے"انتہی
شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"استطاعت کی دو قسمیں ہیں: بدنی استطاعت، اور مالی استطاعت، مالی استطاعت واجب ہونے کی شرط ہے، اور بدنی استطاعت ادائیگی کیلئے شرط ہے" انتہی
"اللقاء الشهری" (1 / 391)
چنانچہ آپ حج کی استطاعت رکھتے ہو اس لئے آپ پر حج فرضِ عین ہے، اور یہ غریب پڑوسی پر صدقہ کرنے پر مقدم ہے؛ اس لئے کہ پڑوسی کا خرچہ آپکے ذمہ نہیں ہے، اور اگر آپ اس پر صدقہ کرتے ہیں تو یہ نفلی صدقہ ہوگا، جبکہ یہ بات مسلَّم ہے کہ فرض نفل سے مقدل ہوتا ہے۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"شرعی انداز سے کیا جانے والا حج نفلی صدقہ سے افضل ہے، اور اگر حج کرنے والے کے عزیز و اقارب غریب ہو ں یا کچھ فقراء کو مدد کی ضرورت ہو تو ان پر صدقہ کرنا افضل ہے، اور اگر حج اور صدقہ دونوں ہی نفلی ہوں تو حج افضل ہے اس لئے کہ یہ مالی اور بدنی عبادت ہے"ا نتہی
"الاختيارات" (116)
واللہ اعلم