الحمد للہ.
اول:
اصل ميں طلاق مكروہ ہے، بلكہ يہ صرف ضرورت كے وقت مباح ہوتى ہے.
شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" اصل ميں طلاق ممنوع ہے، بلكہ يہ بقدر ضرورت و حاجت مباح كى گئى ہے " انتہى
ديكھيں: مجموع الفتاوى ( 33 / 81 ).
اور شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" طلاق كے حكم ميں پانچ قسم كے احكام جارى ہوتے ہيں، يا تو طلاق واجب ہوگى يا پھر حرام، يا سنت يا مكروہ يا مباح.
سوال يہ ہے كہ: اس ميں اصل كيا ہے، اصل ميں طلاق مكروہ ہے، اس كى دليل اپنى بيويوں سے ايلاء كرنے والوں يعنى جو بيويوں كے پاس نہ جانے كى قسم اٹھاتے ہيں ان كے متعلق اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:
اور اگر وہ واپس پلٹ آئيں تو اللہ بخشنے والا رحم كرنے والا ہے، اور اگر وہ طلاق دينے كا عزم كر ليں تو اللہ سبحانہ و تعالى سننے والا جاننے والا ہے .
چنانچہ يہاں اللہ نے طلاق ميں فرمايا:
اور اگر وہ طلاق كا عزم كر ليں تو اللہ تعالى سننے والا جاننے والا ہے .
اور اس ميں كچھ دھمكى سى پائى جاتى ہے، ليكن ايلاء ميں فرمايا:
اور اگر وہ واپس پلٹ آئيں تو اللہ تعالى بخشنے والا رحم كرنے والا ہے .
يہ اس ليے كہ اللہ سبحانہ و تعالى كو طلاق پسند نہيں، اور اصل ميں يہ مكروہ ہے، رہى يہ حديث كہ:
" حلال اشياء ميں سے سب سے مبغوض ترين چيز طلاق ہے "
يہ حديث ضعيف ہے صحيح نہيں، حتى كہ معنى كے اعتبار سے بھى نہيں، اور اس سے ہميں اللہ تعالى كا درج ذيل فرمان مستغنى كر ديتا ہے:
اور اگر وہ طلاق كا عزم كر ليں تو اللہ تعالى سننے والا جاننے والا ہے .
شيخ الاسلام كا يہ قول كہ:
" يہ ضرورت و حاجت كى بنا پر مباح ہے " يعنى خاوند كى ضرورت كے ليے، جب اسے ضرورت ہو تو يہ اس كے ليے مباح ہو گى، مثلا وہ اپنى بيوى كو برداشت اور اس پر صبر نہ كر سكتا ہو، باوجود اس كے كہ اللہ سبحانہ و تعالى نے اشارہ كيا ہے كہ صبر و تحمل اولى و بہتر ہے.
اللہ كا فرمان ہے:
اگر تم انہيں ناپسند كرو تو ہو سكتا ہے تم كسى چيز كو ناپسند كروا ور اللہ سبحانہ و تعالى اس ميں خير كثير پيدا كر دے النساء ( 19 ).
اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" مومن مرد مومن عورت سے بغض نہيں كرتا، اگر وہ اس كے كسى خلق كو ناپسند كرتا ہے، تو اس كى دوسرى چيز سے راضى ہو جائيگا "
ليكن بعض اوقات انسان اس بيوى كے ساتھ نہيں رہ سكتا اس ليے اگر اس كى ضرورت ہو تو اس كے ليے طلاق دينا مباح ہو گا، اس كى دليل درج ذيل فرمان بارى تعالى ہے:
اے ايمان والو جب تم مومن عورتوں سے نكاح كرو، اور پھر انہيں چھونے سے قبل طلاق دے دو تو تم پر كوئى عدت نہيں جسے تم شمار كرو الاحزاب ( 49 ).
اور اس ليے بھى كہ جنہوں نے رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے دور ميں طلاق دى انہيں رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے طلاق دينے سے منع نہيں كيا، اور اگر يہ حرام ہوتى تو نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم انہيں روك ديتے، اور اگر مكروہ ہوتى تو آپ ان سے اس كى تفصيل معلوم كرتے.
پھر اہل علم كا ايك فقہى قاعدہ بھى ہے كہ: ضرورت كے وقت مكروہ زائل ہو جاتا ہے، اور يہ اللہ سبحانہ و تعالى كى حكمت ميں شامل ہوتا ہے، مسلمانوں كے دشمن مسلمانوں طلاق كے جواز پر طعن كيا كرتے تھے؛ كيونكہ وہ نہيں چاہتے تھے كہ عورت پريشان ہو، حالانكہ حقيقت ميں يہ عيب ہے.
اس ليے كہ ہميں يقينى علم ہے كہ جب مرد عورت كو ذلت كے ساتھ ركھے اور وہ اسے نہ چاہتا ہو اور نہ ہى اس سے محبت كرتا ہو تو ايسى تنگى ہوتى ہے جو كوئى برداشت ہى نہيں كر سكتا.
ليكن جب اسے طلاق دے دے تو اللہ اسے اور دينے والا ہے اللہ تعالى كا فرمان ہے:
اور اگر وہ دونوں عليحدہ ہو جائيں تو اللہ تعالى ہر ايك كو اپنى وسعت سے غنى كر ديگا النساء ( 130 ).
چنانچہ دين اسلام جو كچھ لايا اس ميں حكمت پائى جاتى ہے، اور اس ميں رحمت بھى ہے، وگرنہ انسان كو ايسى بيوى كے ساتھ رہنا لازم كرنا جسے وہ پسند نہ كرتا اور محبت نہ ركھے يہ سب سے مشكل كام ہوگا.
حتى كہ شاعر متنبى كا كہنا ہے:
آزاد آدمى كے ليے دنيا كى تنگى ميں يہى كافى ہے كہ وہ اسے دشمن سمجھے جس كے ساتھ دوستى كے سوا كوئى چارہ نہ ہو.
يعنى يہ دنيا كى تنگى ہے كہ تم اسے پنا دشمن سمجھو ليكن اس كے ساتھ دوستى ضرورى كرو.
دوم:
قولہ: " اس كے بغير مكروہ ہے " يعنى ضرورت كے بغير طلاق دينا مكروہ ہے، اس ليے صحيح حالات كى حالت ميں طلاق دينا مكروہ ہوگى، ہم بيان كر چكے ہيں كہ اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:
اور اگر وہ طلاق كا عزم كريں تو اللہ تعالى سننے والا جاننے والا ہے .
اس ميں اس طرح اشارہ اور تنبيہ كى گئى ہے كہ اللہ تعالى كے ہاں طلاق مكروہ ہے، اور يہ اثرى دليل ہے.
اور نظرى دليل يہ ہے كہ:
طلاق كے نتيجہ ميں خاندان كا شيرازہ بكھر جاتا ہے، اور عورت ضائع ہو جاتى اور اس كا دل ٹوٹ جاتا ہے، خاص كر جب اس كى اولاد بھى ہو يا پھر وہ فقير اور تنگ دست ہو، يا ملك ميں اس كا كوئى اور نہ رہتا ہو، تو پھر اس صورت ميں اسے طلاق دينا يقينى مكروہ ہو جاتا ہے.
ہو سكتا اس كے نتيجہ ميں مرد خود بھى ضائع ہو جائے، كيونكہ ہو سكتا ہے اسے كوئى اور بيوى نہ ملے، پھر اگر يہ معلوم ہو جائے كہ يہ شخص طلاق دے ديتا ہے تو لوگ اس سے اپنى بچيوں كى شادى ہى نہيں كرتے، اس ليے بہت سارى علتوں كى بنا پر ہم يہ كہتے ہيں كہ طلاق مكروہ ہے "
شيخ رحمہ اللہ نے يہاں تك كہا كہ:
" طلاق ميں پانچ احكام جارى ہونگے: يا تو ضرورت كى بنا پر مباح ہوگى، اور ضرورت نہ ہونے كى صورت ميں مكروہ ہو گى، اور ضرر ہونے كى صورت ميں مباح ہوگى، اور ايلاء ميں واجب ہوگى، اور بدعت كى بنا پر حرام ہوگى.
ہم يہ بھى بيان كر چكے ہيں كہ: جب بيوى كى عفت و عصمت ميں فرق آ جائے اور اس كى اصلاح كرنا ممكن نہ ہو تو واجب ہوگى " انتہى
ديكھيں: الشرح الممتع ( 13 / 7 - 14 ).
اور اگر ضرورت كى بنا پر طلاق مباح ہے اور ضرورت نہ ہونے كى حالت ميں مكروہ ہے، تو پھر بلاشك اولاد كى رغبت ركھنا يہ نكاح كے مقصد ميں شامل ہوتا ہے، اور اگر بيوى بانجھ ہو اور خاوند دوسرى بيوى كرنے پر قادر نہ ہو، يا عدل نہ كر سكنے كا خدشہ ہو، يا پھر دوسرى بيوى ہونے كى صورت ميں پہلى بيوى خاوند كے ساتھ رہنے سے انكار كرتى ہو، تو پھر اس حالت ميں طلاق دينے ميں كوئى حرج نہيں، تو يہ ضرورت ميں شمار ہوتا ہے جس ميں طلاق دينا مباح ہو جاتا ہے.
اور يہ كہ خاوند كو علم تھا كہ بيوى بانجھ ہے يہ سب كچھ اوپر بيان كردہ ميں مانع نہيں.
دوم:
ہم اپنى عزيز بہن سے كہيں گے كہ: جب آپ اپنے خاوند كے ساتھ رہنے كى رغبت ركھتى ہيں، تو آپ كو چاہيے كہ آپ اپنے مابين چند مصلح قسم كے افراد كو لائيں جو آپ كے حالات كى اصلاح كريں.
ہو سكتا ہے حقيقت ميں بانجھ پن كے علاوہ طلاق كا سبب كچھ اور ہو، يا پھر خاوند آپ كو ركھ كر دوسرى شادى كرنے پر راضى ہو جائے، اور اگر آپ اسے ناپسند كريں تو آپ اپنا معاملہ اللہ كے سپرد كر ديں، ہو سكتا ہے اللہ تعالى آپ كو اس سے بھى بہتر خاوند عطا فرمائے، اور ہو سكتا ہے آپ كو اولاد بھى عطا كر دے.
كتنے ہى خاوند اور بيوى ايسے ہيں جب وہ اس سبب كے باعث عليحدہ ہوئے تو اللہ سبحانہ و تعالى نے ہر ايك كو اولاد عطا فرما دى.
اور پھر اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:
اور اگر وہ دونوں عليحدہ ہو جائيں تو اللہ تعالى ہر ايك كو اپنى وسعت سے غنى كر ديگا، اور اللہ تعالى وسعت والا حكمت والا ہے النساء ( 130 ).
مزيد فائدہ اور معلومات كے ليے آپ سوال نمبر ( 2910 ) كے جواب كا مطالعہ بھى كريں.
اللہ تعالى سے دعا ہے كہ وہ ہميں اور آپ كو سيدھى راہ كى توفيق عطا فرمائے.
واللہ اعلم .