الحمد للہ.
اول:
بلاشك و شبہ دين والى عورت تلاش كرنا سب سے پہلا واجب ہے جو كسى بھى خاوند كے ليے سب سے پہلا واجب ہے جسے شادى كے ليے سب سے پہلے مدنظر ركھنا ضرورى ہے جيسا كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى راہنمائى بھى يہى ہے.
پھر ہم ميں سے ہر ايك تو اس كے مطابق حكم لگاتا ہے جو اس كے سامنے ظاہر ہوتا ہے، وہ اس طرح كہ عورت كے بارہ دريافت كرتا ہے، اور اس كے خاندان كے متعلق پوچھتا ہے، اور شادى سے قبل اس كى حالت دريافت كرتا ہے، يہ نہيں كہ وہ عورت خود جو كچھ ظاہر كرتى ہو اس كو ديكھ كر كوئى حكم لگائے، يا پھر اس كے مظھر كو ديكھ كر كوئى رائے قائم كر بيٹھے يا پھر كسى اور موقف كى بنا پر.
اس ليے اگر وہ اس كے بارہ ميں پوچھ گچھ كرتا ہے اور پھر معاملہ اس كى توقع كے برعكس ظاہر ہو تو يہ ايك تقديرى معاملہ ہوگا جس ميں اس كا اپنا كوئى دخل نہيں وہ اس كا محتاج ہے كہ اس كے ساتھ كس طرح معاملات كرے، اس پر جو واجب تھا اس نے پورا كر ديا.
دينى التزام اور ديندار ہونا يہ ايك تفصيل طلب امر ہے بعض لوگ چاہتے ہيں كہ اس ميں انہيں ان كے مطابق دين والى ملے، جو كہ نفلى روزے بھى ركھتى ہو، اور قيام الليل بھى كرے اور قرآن مجيد كى بھى حافظہ ہو، يا پھر سارا نہيں تو كچھ نہ كچھ حفظ كيا ہو، يا وہ شرعى علم كى ماہر ہو.... اس كے علاوہ اور بھى رغبات ہوتى ہيں.
ليكن بعض دوسرے افراد كى نظر ديندار ہونے كا درجہ مختلف ہوتا ہے.
فى الواقع اس ميں لوگ مختلف ہيں، اور اس كا حصول بھى ممكن ہے، اور نہ ملنا بھى ممكن ہے، يہ سب كچھ شادى سے قبل ہے ليكن شادى كے بعد ہمارے سامنے دو چيزيں ہيں:
اول:
يہ كہ وہ ديندار تو ہو ليكن جس كى توقع تھى اس سے كم درجہ كى ديندار ہو يا پھر مطلوبہ درجہ سے كم دين ركھتى ہو، يہ حالت قبول كرنى ممكن ہے، چاہے ہمارى اميد سے كم ہى ہو جبكہ وہ صرف واجبات و فرائض پر عمل كرتى اور حرام كردہ سے اجتناب كرے.
اور اگر عورت اس واجب حد سے بھى كم درجہ يعنى واجبات و فرائض كى ادائيگى كرتى ہے اور حرام اشياء سےاجتناب كرتى ہے تو يہ خير و نجات پر ہے ، ان شاء اللہ، ليكن شرط يہ ہے كہ اس كے ساتھ اس ميں خاوند كى اطاعت و فرمانبردارى بھى پائى جاتى ہو.
امام احمد رحمہ اللہ نے عبد الرحمن بن عوف رضى اللہ تعالى عنہ كى حديث روايت كى ہے كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" جب عورت پانچ نمازيں ادا كرتى ہو، اور رمضان كے روزے ركھتى ہو، اور اپنى شرمگاہ كى حفاظت كرے، اور اپنے خاوند كى اطاعت و فرمانبردارى كرنے والى ہو، تو اسے كہا جائيگا جنت كے جس دروازے سے داخل ہونا چاہتى جنت ميں داخل ہو جاؤ "
مسند احمد حديث نمبر ( 1573 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے اس حديث كو صحيح قرار ديا ہے.
اور يہ بھى ممكن ہے كہ اس كے بعد مرد و عورت خير و بھلائى ميں ايك دوسرے كا تعاون كريں، اور نفل و نوافل ميں ايك دوسرے كے ممد و معاون بنيں، ليكن بڑى مشكل اس وقت پيش آتى ہے جب اطاعت ميں اس حد تك كمزورى پيدا ہو جائے كہ واجب كو ترك كرنا شروع كر ديا جائے اور حرام كا ارتكاب ہونے لگے.
امام احمد رحمہ اللہ نے عبد اللہ بن عمر رضى اللہ تعالى عنہما سے حديث روايت كي ہے كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" ہر عمل كے ليے نشاط و رغبت ہوتى ہے، اور ہر نشاط و رغبت كے ليے ايك مدت ہے، جس كى مدت ميرى سنت كى جانب ہو تو وہ كامياب ہے، اور جو اس كے علاوہ ہو تو وہ ہلاك ہو گيا "
مسند احمد حديث نمبر ( 6664 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے اسے صحيح قرار ديا ہے.
اس كا معنى يہ ہے كہ: انسان پر ايسا وقت بھى آتا ہے جس ميں وہ چست ہو كر عبادت و اطاعت كرتا ہے، اور پھر كبھى ايسا بھى وقت آتا ہے كہ جن حالات ميں اس پر سستى و كاہلى طارى ہو جاتى ہے، اور وہ اس درجہ سے كم درجہ ميں آ جاتا ہے يہ چيز لوگوں كى طبيعت ميں معروف ہے، ايسے شخص كى كاميابى كى اميد ہے.
ليكن يہ اس وقت ہے جب وہ سستى و كاہلى كے عرصہ ميں فرائض كى ادائيگى ميں سستى نہ كرے، اگر وہ فرائض كو ترك كر دے يا پھر اس ميں سستى كرے تو وہ ہلاك ہو گيا.
اور يہ ہلاكت صرف گناہ كى وجہ سے نہيں كہ وہ گناہ ميں پڑ گيا اور ہلاك ہو گيا، كيونكہ ہم سب گنہگار ہيں اور غلطياں كرتے ہيں، بلكہ يہ ہلاكت تو اس وقت ہے جب يہ چيز انسان كے عام سلوك ميں ظاہر ہو اور اس كى حالت پر غالب آ جائے اور گناہ ميں پڑ جائے، اور نہ تو وہ متاثر ہو اور نہ ہى نادم ہو كر توبہ كرے، بلكہ وہ گناہ پر اصرار كرنا شروع كر دے يا پھر گناہ كى طرف مائل ہو جائے.
دوم:
آپ نے جو اپنى بيوى كى حالت بيان كى ہے اس سے واضح ہوتا ہے كہ وہ اس سستى و كاہلى ميں پڑ گئى ہے جس سے انسان ہلاك ہو جاتا ہے، بلكہ يہ تو اس قسم ميں سے ہے جس كى حقيقت ميں شك ڈالتا ہے كہ وہ جو ديندار ظاہر كر رہى تھى وہ ايك دكھلاوا تھا، اس ليے جب وہ بعض اطاعات ميں سستى كرتى ہے تو پھر اسے آپ كى داڑھى كا كيا كہ وہ اس سے تنگ كيوں نہ ہو ؟!
اس ليے اب آپ پر واجب يہ ہے كہ آپ اس كى اس حالت ميں اس كے ليے سستى نہ دكھائيں، كيونكہ فجر كى نماز ميں سستى كرنا بہت بڑا جرم ہے، بلكہ اكثر صحابہ كرام كے ہاں تو يہ كفر مخرج عن الملۃ ہے.
اور شيخ عبد العزيز بن باز رحمہ اللہ بھى اسى كا فتوى ديتے تھے، اس ليے آپ اس كو ايسا نہ كرنے ديں، اور اگر اس ميں اس كے ليے غسل مانع ہے تو پھر آپ اسے بغير غسل كيے سونے ہى نہ ديں، تا كہ اس كا عذر ختم ہو جائے.
واقعتا بيوى كے متعلق آپ كى پريشانى ميں ہم بھى آپ كے ساتھ شريك ہيں، اور آپ كو اس سے اولاد پيدا كرنے كے بارہ ميں غور و فكر كرنے كا كہتے ہيں، آپ اس كے ساتھ ايك بار پھر كوشش كر ديكھيں، اگر وہ نماز كى صحيح ادائيگى كرتى ہے اور وقت پر نماز ادا كرتى ہے جس ميں سب سے پہلے فجر كى نماز ہے، اور پھر آپ كى اطاعت كرتى ہے اور اپنے ذمہ حقوق كى ادائيگى بھى كرے تو آپ كچھ عرصہ اور صبر كريں، اور اس كى حالت كو ديكھيں كہ وہ كيا كرتى ہے، اور آپ اسے كى اصلاح كرتے ہوئے اسے تعليم ديں، اور اس كے ٹيڑھ پن اور اس كى كمزورى حالت كو برداشت كريں، ہو سكتا ہے اللہ تعالى اسے ہدايت دے اور اس كى حالت كى اصلاح فرما دئے.
ليكن اگر آپ ديكھيں كہ وہ نماز كے معاملہ ميں سستى كرنے پر مصر ہے، يا پھر آپ كے دينى معاملہ ميں دخل اندازى كرتى ہے، اور آپ كى داڑھى پر اعتراض كرتى ہے، تو پھر اس ميں كوئى خير و بھلائى نہيں.
ہم آپ كو نصيحت كرتے ہيں كہ آپ اس سے اولاد پيدا ہونے سے قبل ہى عليحدہ ہو جائيں، كہ كہيں اولاد پيدا ہو جائے اور يقينى مشكلات پيدا ہوں.
مزيد آپ سوال نمبر ( 98624 ) كے جوابات كا مطالعہ ضرور كريں.
اللہ تعالى سے ہمارى دعا ہے كہ وہ آپ كو صحيح راہ دكھائے اور آپ كى راہنمائى فرمائے.
واللہ اعلم .