الحمد للہ.
اول:
جب خاوند اپنى بيوى كو طلاق رجعى دے تو بيوى كو اپنے خاوند كےگھر ميں عدت گزارنا واجب ہے، اگر وہ بغير كسى عذر كے گھر سے نكلتى ہے تو وہ گنہگار ہوگى اسے عدت ختم ہونے تك گھر واپس آنا ہونا گا؛ كيونكہ اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:
تم انہيں ان كے گھروں سے مت نكالو، اور نہ ہى وہ خود نكليں، مگر يہ كہ وہ كوئى واضح فحاشى كا كام كريں الطلاق ( 1 ).
جب عورت كو اپنے نفس پر كسى نقصان و ضرر كا خدشہ نہ ہو تو وہ خاوند كےگھر ميں رہےگى.
مزيد آپ سوال نمبر ( 122703 ) كے جواب كا مطالعہ ضرور كريں.
دوم:
طلاق رجعى والى عورت كو اگر اس كا خاوند مسجد يا مدرسہ حفظ قرآن كى كلاس ميں جانے كى اجازت دے تو اس كے ليے جانا جائز ہے؛ كيونكہ رجعى طلاق والى عورت ابھى خاوند كى بيوى ہے، اسے وہى حق حاصل ہيں جو دوسرى بيويوں كو اور اس پر خاوند كا وہى حق ہے جو دوسروں كا ہوتا ہے.
ابن عمر رضى اللہ تعالى عنہما كہا كرتے تھے:
" جب كوئى مرد اپنى عورت كو ايك يا دو طلاقيں دے تو وہ اس كے گھر سے خاوند كى اجازت كے بغير نہيں جا سكتى "
مصنف ابن ابو شيبۃ ( 4 / 142 ).
شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" راجح قول يہى ہے كہ طلاق رجعى والى عورت اس بيوى كى طرح ہى ہے جسے طلاق نہيں ہوئى، يعنى اس كے ليے اپنے پڑوسيوں اور مسجد يا رشتہ داروں يا تقرير اور درس سننے كے ليے جانا جائز ہے، يہ اس عورت كى طرح نہيں جس كا خاوند فوت ہو جائے اور وہ عدت ميں ہو.
رہا درج ذيل فرمان بارى تعالى:
تم انہيں ان كے گھروں سے مت نكالو اور نہ ہى وہ خود نكليں .
اس سے اخراج مفارقت ہے، يعنى وہ گھر نہ چھوڑے اور نكل كر كہيں دوسرےگھر ميں جا كر رہنے لگے... " انتہى
ماخوذ از: نور على الدرب.
امام نووى رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" اگر رجعى طلاق ہو تو وہ اس كى بيوى ہے، اس كے خاوند كو اس كے اخراجات برداشت كرنا ہونگے، اور وہ خاوند كى اجازت كے بغير باہر نہيں جائيگى " انتہى
ديكھيں: روضۃ الطالبين ( 8 / 416 ).
حاصل يہ ہوا كہ عدت ختم ہونے تك اس عورت كو اپنے خاوند كے گھر واپس جانا چاہيے، اور اسے اس دوران خاوند كى اجازت سے باہر جانا جائز ہوگا.
واللہ اعلم .