سوموار 22 جمادی ثانیہ 1446 - 23 دسمبر 2024
اردو

كيا لواطت كرنے والے شخص سے شادى قبول كر لے

148429

تاریخ اشاعت : 25-12-2010

مشاہدات : 8502

سوال

ميں چوبيس برس كى ہوں ميرے ليےا يكن وجوان كا رشتہ آيا ہے جس ميں وہ سارى اخلاقى صفات موجود ہيں جنہيں ميں چاہتى ہوں، ميں نے اس نوجوان كو بہت پسند كيا، ليكن چند ماہ كے بعد يہ خبر ملى كہ وہ تو لواطت كا ارتكاب كرتا ہے، اس ليے ميرے والد صاحب نے فيصلہ كيا كہ وہ يہ شادى نہيں كرينگے، اور يہ فيصلہ اس تحقيق كے بعد كيا كہ وہ واقعى لواطت جيسى معصيت كا مرتكب ہے، اور ميرا دل اس كے ساتھ لگ چكا ہے، اور جو رشتہ بھى آتا ہے ميں انكار كر ديتى ہوں.
وہ نوجوان اب دوبارہ ميرا رشتہ طلب كرنا چاہتا ہے اور مجھ سے محبت كرتا ہے؛ كيا يہ صحيح ہے كہ يہ شخص صحيح طريقہ سے ازدواجى تعلقات قائم نہيں كر سكتا، ميں زيادہ سے زيادہ معلومات حاصل كرنا چاہتى ہوں، اور كيا يہ ممكن ہے كہ شادى اس كى لواطت جيسى عادت ميں كمى كا باعث بن جائے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

لواطت ايك عظيم جرم اور كبيرہ گناہ ہے، اور اس كے سبب سے ہى قوم لوط كو ہلاك كيا گيا تھا،اور ان كى بستياں تباہ كر دى گئى تھيں، اور انہيں الٹا كر ركھا ديا گيا، كيونكہ ان كے اس جرم ميں فطرت كى مخالفت تھى، اور يہ ايك غير فطرى فعل ہے.

ليكن يہ گناہ بھى باقى گناہوں كى طرح ايك گناہ ہے، جس سے توبہ كرنا ممكن ہے، اور توبہ كر كے وہ اچھے عمل كر سكتا ہے.

اس ليے اگر لواطت كرنے والا شخص توبہ كر لے تو اصلا اسے بطور خاوند قبول كرنے ميں كوئى حرج والى بات نہيں، ليكن اس كے ليے چند ايك امور كا خيال ركھنا ہوگا:

اول:

عورت كا نكاح ولى كے بغير نہيں ہوتا، اس ليے نكاح ميں ولى كا ہونا ضرورى ہے، كيونكہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

ابو موسى اشعرى رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" ولى كے بغير نكاح نہيں ہوتا "

سنن ابو داود حديث نمبر ( 2085 ) سنن ترمذى حديث نمبر ( 1101 ) سنن ابن ماجہ حديث نمبر ( 1881 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے اس حديث كو صحيح ترمذى ميں صحيح قرار ديا ہے.

اور ايك حديث ميں رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" جس عورت نے بھى اپنے ولى كى اجازت كے بغير نكاح كيا تو اس كا نكاح باطل ہے، اس كا نكاح باطل ہے، اس كا نكاح باطل ہے، اور اگر اس كى رخصتى ہو جائے اور دخول كر ليا جائے تو اس كى شرمگاہ حلال كرنے كى بنا پر اسے پورا مہر ملےگا، اور اگر وہ جھگڑا كريں تو جس كا ولى نہ ہو اس كا ولى حكمران ہو گا "

مسند احمد حديث نمبر ( 24417 ) سنن ابو داود حديث نمبر ( 2083 ) سنن ترمذى حديث نمبر ( 1102 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح الجامع حديث نمبر ( 2709 ) ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.

اس ليے اگر آپ كا ولى نكاح پر راضى نہيں تو آپ كو ولى كى بات مانے بغير كوئى چارہ نہيں، اور آپ كو اس شخص سے شادى نہ كرنے دينا اس كا آپ كو شادى سے روكنے ميں شامل نہيں ہوگا، كيونكہ اس نے آپ كو مناسب رشتہ سے نہيں روكا بلكہ اس نے تو ايسے شخص سے شادى كرنے سے روكا ہے جو سب سے قبيح خصلت والا ہے.

دوم:

انسان كو اپنى اور اپنى اولاد كى شہرت كا خيال ركھنا چاہيے كہ اس كى شہرت اچھى رہے اور برى نہ ہو، يہ ايسا معاملہ ہے جو معتبر شمار ہوتا ہے، اس ليے آپ كے والد كو يہ حق ہے كہ وہ اس شادى سے انكار كر دے، كيونكہ ہو سكتا ہے آپ اور آپ كى اولاد كو اذيت و ضرر ہو.

كيونكہ جب خاوند اس فحش كام ميں معروف ہو، تو آپ كو اس كا طعنہ ديا جائيگا، يا پھر آپ كى اولاد كو يہ طعنہ ديا جائے، اس ميں خرابى واضح ہے، اور جب بھى والد اس شخص كو ديكھے گا تو اسے ياد آ جائيگا كہ يہ شخص تو بہت خسيس حركت والا ہے اور سب لوگوں سے برى خصلت كا مالك ہے؟

يہ بتائيں كہ اس سے بڑھ كر اور كيا خرابى ہوگى، اور كس سے دل كبيدہ خاطر ہوگا ؟

اس ليے اكثر لوگ اس خسيس حركت ميں مبتلا شخص سے شادى كرنے سے انكار كر ديتے ہيں، تا كہ يہ ان تك نہ پہنچے، اور لوگوں كى باتيں نہ سننا پڑيں اور تنقيد سے بچا جا سكے، اور اپنى اولاد كا مستقبل خطرے ميں نہ ڈالا جائے.

سوم:

اس فحش حركت كے مالك شخص كو كئى قسم كى بيمارياں لاحق ہوتى ہيں، وہ نفسياتى اور جسمانى دونوں بيماريوں كا شكار ہوتا ہے، اس كے ساتھ غير فطرى حركت اور فعل كا بھى مالك ہے، اور دل كى سياہى اور مردانگى كے فقدان كا مالك ہوتا ہے.

بالفرض اگر وہ توبہ بھى كر لے، اور وہ اس حركت كو چھوڑ بھى دے تو بھى اس جيسے شخص سے دور رہنا بہتر ہے، اور ايسے شخص كے ساتھ شادى قبول كرنے ميں بہت قسم كے خطرات پائے جاتے ہيں، كيونكہ ہو سكتا ہے وہ پھر اس بيمارى ميں مبتلا ہو جائے، اور يہ بھى ہو سكتا ہے وہ بيوى كے حقوق كى ادائيگى ميں بھى كوتاہى كرے، كيونكہ اس كى عادت ہے كہ اس كے ساتھ لواطت كى جائے، ہم اس ذلت و رسوائى سے اللہ كى پناہ ميں آتے ہيں.

چہارم:

آپ كے سوال ميں وارد ہے كہ:

آپ كے والد صاحب نے اس كے بارہ ميں تحقيق ہے كہ وہ اس فحاشى كا مرتكب ہے اور اس كى تاكيد كر لى ہے، اس معنى يہ ہوا كہ وہ ابھى تك اسب يمارى اور فحش كام كا عادى ہے، اگر معاملہ ايسا ہى ہے تو پھر ايسے شخص سے شادى كرنا حلال نہيں.

پنجم:

اس شخص كو چاہيے كہ جب وہ توبہ كر لے اور اس فحش كام سے رجوع كر لے، تو وہ اس علاقے اور شہر و بستى كو چھوڑ دے جہاں وہ رہتا ہے، اور كسى دوسرے علاقے اور شہر ميں جا كر اپنى عفت و عصمت كو محفوظ بنائے، تا كہ لوگوں كى كلام سے محفوظ رہ سكے.

ششم:

اس طرح كے شخص كے ساتھ شادى كو قبول كرنے والى عورت كو چاہيے كہ وہ اس كے برے افعال سے بچ كر رہے، اس ليے نہ تو وہ اس كى كسى ايسے معاملہ ميں معاونت كرے جس كے ذريعہ ہم جنس پرستى تك پہنچے يا پھر اس كى دعوت دے.

دوم:

كسى بھى عورت كے ليے جائز نہيں كہ وہ كسى اجنبى اور غير محرم مرد كے ساتھ تعلقات ركھے، چاہے وہ آپس ميں شادى كرنے كا بھى عزم ركھتے ہوں؛ كيونكہ شريعت اسلاميہ ميں يہ بات اٹل ہے كہ خلوت كرنا، اور مرد كو ديكھنا اور چھونا اور نرم لہجہ ميں بات چيت كرنا يہ سب حرام ہے،اور يہ سب ايسى آفات ہيں جن سے حرام تعلقات جنم ليتے ہيں.

سوم:

كسى بھى مومن كے ليے اچھا نہيں كہ وہ شيطانى وسوسوں پر كى طرف دھيان نہ دے اور نہ ہى اس كى طرف مائل ہو، كہ وہ خيال كرنے لگے كہ اس كے ليے صرف اسى شخص سے شادى كرنا ممكن ہے جس كو وہ چاہتا ہے، اور اس كے علاوہ كسى دوسرے شخص سے شادى نہيں كر سكتا.

كيونكہ يہ وہم و خيال اور شيطانى ہتھكنڈے اور وسوسے ہيں جو شيطان بعض لوگوں كے دلوں ميں ڈال ديتا ہے، تا كہ وہ نااميد ہو جائيں، يا پھر حرام كا ارتكاب كرنے لگيں.

دين والے شخص اور صاحب عقل و دانش كو چاہيے كہ وہ امور كو شرعى اور عقلى ميزان ميں تولے، نہ كہ جذبات كے ميزان پر، كيونكہ شادى كچھ وقت كے ليے فائدہ نہيں بلكہ يہ تو ايك زندگى ہے، جس ميں خاندان و گھر اور اولاد نے شامل ہونا ہے اور جب خاوند اس كا اہل ہى نہ ہو تو پھر عورت كو سوائے افسوس و شقاوت و بدبختى كے كچھ حاصل نہيں ہوگا.

خلاصہ يہ ہوا كہ:

جو شخص بھى اس طرح كے شخص سے جو ايسى قبيح معصيت كا مرتكب ہو شادى كى آزمائش ميں پڑے چاہے اس نے معصيت سے توبہ بھى كر لى ہو اسے چاہيے كہ سب سے پہلے تو وہ اس معاملہ كا ثبوت تلاش كرے، اور اس كى حسن توبہ كو ديكھے، اور اس فحاشى كے سارے دروزاے بند كرے.

ليكن اگر اس كى توبہ ثابت نہ ہو اور اس صحيح راہ پر چلنے كا يقينى علم نہ ہو سكے تو پھر اس سے شادى كرنا جائز نہيں، چاہے وہ نماز روزہ كى ادائيگى بھى كرتا ہو، ولى پر واجب ہوتا ہے كہ وہ وہ اپنى ولايت ميں موجود عورت كو اس جيسے شخص سے شادى كرنے سے روكے.

مزيد اہميت اور فائدہ كے ليے آپ سوال نمبر ( 10050 ) اور ( 5177 ) اور ( 38622 ) كے جوابات كا مطالعہ ضرور كريں.

اللہ تعالى سے ہمارى دعا ہے كہ وہ آپ كو نيك و صالح خاوند اور اولاد نصيب فرمائے، اور آپ سے ہر قسم كى برائى و شر اور آزمائش كو دور ركھے.

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب