الحمد للہ.
اول:
اگر پہلا نكاح مكمل شروط اور اركان كے ساتھ ہوا يعنى لڑكے اور لڑكى كى رضامندى اور عورت كے ولى اور دو عادل مسلمان گواہوں كى موجودگى ميں نكاح ہوا ہے تو يہ نكاح صحيح ہے، اس كے نتجيہ ميں نكاح كے جو احكام اور اثرات ہيں وہ سب ثابت ہونگے.
ليكن اگر نكاح ميں كوئى شرط غير موجود تھى تو يہ نكاح فاسد ہے اس صورت ميں نكاح كى تجديد ہوگى.
دوم:
والدين كے ساتھ حسن سلوك كرنے جيسا عظيم حق اولاد كے ذمہ ہے جو كسى شخص پر مخفى نہيں، اس ليے شادى كے معاملہ ميں بيٹے كو والدين سے مشورہ ضرور كرنا چاہيے اور حتى الامكان انہيں اس پر راضى كرنے كى كوشش كرنى چاہيے.
اگر پہلے نكاح كے بارہ ميں والدين كو بتانے سے كوئى واضح خرابى اور نقصان ہونے كا انديشہ نہيں تو پھر آپ كے ليے بہتر يہى ہے كہ آپ انہيں نكاح كے بارہ ميں بتا ديں اور انہيں راضى كرنےكى كوشش كريں، اور بيوى كے حاملہ ہونے كى صورت ميں تو نكاح كے متعلق بتانا ضرورى ہو جائيگا تا كہ كہيں زنا وغيرہ كى تہمت نہ لگ جائے.
اور اگر نكاح كے متعلق بتانے سے كوئى واضح خرابى اور نقصان ہوتا ہو يعنى والدين كى قطع تعلقى كا خوف ہو تو پھر آپ كو حق ہے كہ آپ ان كى موجودگى ميں ظاہرى طور پر نكاح كى رسم ادا كريں، يا پھر اگر نكاح رجسٹر نہيں كرايا تو ان كى موجودگى ميں نكاح رجسٹر كرا ليں.
ظاہرى طور پر نكاح سے مقصود يہ ہے كہ عورت كا ولى دو عادل گواہوں كى موجودگى ميں كہے ميں نے اپنى فلاں بيٹى يا فلاں بہن كا نكاح تيرے ساتھ كيا اور آپ اسے قبول كر ليں اور عورت كے ولى كو يہ پہلے سے بتا ديں كہ نكاح كى تجديد كا كوئى اثر نہيں بلكہ پہلا نكاح ہى كارآمد ہے صرف والدين كے سامنے كيا جا رہا ہے.
واللہ اعلم .